اعلی درجے کی تلاش
کا
9825
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2012/05/06
سوال کا خلاصہ
پیغمبر اکرم (ص) کے بارے میں حضرت علی کے اس قول ِ’’طبیب دوّاربطبہ ‘‘کیا مطلب ہے ؟
سوال
پیغمبر اکرم کے بارے میں حضرت علی کے اس قول ِ’’طبیب دوّاربطبہ ‘‘کیا مطلب ہے ؟
ایک مختصر

حضرت علیؑ پیغمبر اکرم کی تشبیہ ایسےطبیب اور ڈاکٹر کر کے جو اپنی طب کے ذریعہ ضررورتمندوں کے روحانی علاج کے لیئے کو شاں رہتا ہے انسانوں کی روح و جان کے علاج کے سلسلے میں انحضرت کے رسالت کو بیان فرما رہا ہے ’’طبیب دوّاربطبہ‘‘ وہ مرض جہالت کے ڈاکٹراور ذمہ داری اخلاق کے طبیب ہیں اور اپنی طہارت کے ساتھ ساتھ گھومتے اور چلتے پھرتے ہیں کنایہ یہ ہے اس بات کا کہ آپ جاھلوں اور گمراھوں کے علاج کے لیئے خود کو آگے بڑھتے ہیں اور خود کو اسی امر کا ذمہ دار سمھجتے ہیں (یعنی گمراہ کے اپنے پاس آنے کا انتظار نہیں کرتے) اس مرحلے میں جو بات قابل غور یہ ہے وہ ہے یہ کہ پیغمبر (ص) عام ڈاکٹروں اور طبیوں سے مختلف ہیں عام ڈاکٹروں کا بیماروں سے فیزیکل ارتباط رہتا ہے اور وہ اپنے مطلب یا دواخانہ میں بیٹھ کر مریض کا انتظار کرتے ہیں مگر پیغمبر خود کو مریضوں کی جستجو میں نکلتے اور انکا علاج فرماتے ہیں دوسرے الفاظ میں رسول اکرم کی رسالت (ذمہ داری) جو لوگوں کے روحانی امراض کے معالجہ سے مربوط ہے عام بیماروں کے علاج ماورا ہے اور یہ رسالت اس بات کی متقفی ہے کہ خود آپ لوگوں کے علاج کے

لئے آگے بڑھیں (نہ یہ کہ ان مریضوں کا اپنی جگہ بیٹھ کر انتظار کریں) ۔

تفصیلی جوابات

’’ طبیب دوّار ‘‘ کے مفہوم کو سمجھنے  کے لیئے سب سے پہلے امام علیؑ کے خطبہ کے اس حصّہ پر نظر ڈالتے ہیں جس میں آپ نے نبی اکرم کے صفات کو بیان کرنے کے دوران اس لفظ کا استعمال فرمایا ہے اس کے بعد سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں ۔

’’و منھا طبیب دوار بطبۃ قد احکم مراحمۃ و احمی مواسعہ یضع ذلک حیث الحاجۃ الیہ من قلوبٍ عمیٍ وآذانٍ صمّ والسنۃٍ بکم متتّبع بدوائہ مواضع الغفلۃ و مواطن الحیرۃ‘‘ [1] وہ (نبی) ایسے طبیب ہیں جو اپنی طبابت کے ھمراہ ھمیشہ گھومتے پھرتے رہتے ہیں اپنی دواوں اور مرحم کو اچھی طرح تیار کیئے ہوئے ( زخم کو جلانے کے لیئے ) گرم کرنے والے آلات کو پوری طرح سے آمادہ کئے رہتے ہیں تاکہ جہان پر بھی ضرورپڑے وہاں اسے رکھ دیں اور اندھے دلوں بہرے کانوں اور گونگی زبانوںپر لگا دیں وہ اپنی دواوں کے ذریعہ غفلت زدہ اور گم گذشتہ بیماروں کاعلاج کرتے ہیں ایسے انوار سے منوّر نہیں کر سکتے ہیں جس کی روشنی روح کو نورانیّت اور تازگی عطا کرتی ہے[2]

حضرت علیؑ پیغمبر اکرم کی تشبیہ ایسے طبیب اور ڈاکٹر سے کرکے جو اپنی طب کے ذریعہ لوگوں کے روحانی علاج کےلیئے کوشاں رہتا ہے انسانوں کیو جان کے سلسلے میں آنحضرت کی رسالت (ذمہ داری )کو بیان فرما رہے ہیں ’’ طبیب دوّاربطبہ‘‘ وہ مرض جہالت کے ڈاکٹر اور برے اخلاق کے طبیب ہیں اور اپنی طبابت کے ھمراہ چلتے پھرتے اور گھومتے رہنے والے ہیں یہ کنایہ ہے اس بات کا کہ آپ جاھلوں اور گمراھوں کی ھدایت کے لیئے  خود آگے بڑھتے ہیں اوراسکو اپنی ذمّہ داری سمجھتے ہیں کلمہ ’’مراھم‘‘ (مرھم) یعنی دوا کی جمع ) استعارہ ہے ایسے نمایاں صفات حسنۃ کا جو آنحضرت میں موجود تھے کلمہ ’’مواسم‘‘ بھی ایسی سزاوں کا استعارہ ہے جو اس وقت دی جائے جب وعظ و نصیحت موثر نہ رہ جایئں پس آپ ایسے ماھر حکیم کے مانند ہیں جس کے پاس ھر طرح کا مرھم ساری دوایئں اور زخم کو جلانے کے اسباب ووسائل سبھی موجود ہیں تاکہ جہاں بھی ضرورت ہو ان دواوں اور اسباب ووسائل کے ذریعہ تاریک دلوں کا علاج کرے اور اسطرح سے انھیں انوار علوم و ھدایت کے قبول کرنے کی طرف مائل کرے اور ان کی چشم بصیرت میں بینائی عطا کرے ان کے کانوں کو وعط ونصیحت کو سننے کے لیئے آمادہ  کرتے

کلمہ’’صم‘‘(بہرا پن) مجازی طور پر ایسے لوگوں کے لیئے استعمال ہوا ہے جو وعظ و نصیحت کو سننا نہیں چاھتے اور یہ اسم لازم کے ملزوم پراطلاق ہونے کے  باب سے ہے کیونکہ عدم سماعت (بہرا پن )وعظ و نصیحت کے فوائد سے محروم رہنےکا سبب ہوتا ہے  اس طرح سے ایسی زبانیں جن میں گویائی نہیں ان کے علاج کے لیئے (اور ان پر ذکرخدا اور حکمت آمیزکلمات جاری کرنے کے لیئے آمادہ کرے )

کلمہ(گونگا پن )سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ یہ زبانیں ایسی ہیں کہ جو مناسب باتیں بیان کرنے سے گریزاں ہیں اور یہ بات انکے گونگے لوگوں کے مانند ہو جانے کا سبب بنیں

پس انسان کوطیب جسمانی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ضرورت طیب روحانی کی ہےکیونکہ امراض جسمانی کا دور کرنا اس کی چند روزہ اور مادی زندگی کو باقی رکھنے کے لیئے ہے مگر روحانی امراض کاخود سے دور کرنا اسکی زندگی جاویدکے لیئے لازمی ہے

جو بات یہاں پر قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ پیمبر اکرم عام ڈاکٹروں اور طبیبوں سے مختلف ہیں عام ڈاکٹروہ ہیں کہ ان کا بیماروں سے فیزیکل رابطہ ہوتا ہے اور وہ اپنی کلینک یا مطب میں بیٹھ کر مریض کا انتظار کرتے ہیں مگر پیغمبر خود مریضون کی جستجو میں نکلتے ہیں ، با الفاظ دیگر ، رسول اکرمؐ کی رسالت (ذمہ داری) جو لوگوں کے روحانی امراض کے علاج سے مربوط ہے [3] اس سے ماوراء ہے اور یہ رسالت اس امر کی مقتضی ہے کہ خود آپ لوگوں کے علاج کیلئے آگے بڑھتے ہیں (نہ یہ کہ ان مریضوںکا اپنی جگہ بیٹھ  کر انتظار کریں) ابن ابی الحدید نھج البلاغہ کے شارح طیب دوار کے بارے می  کہتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ ایک متحرک (اور گھومتے رہنے والے) طبیب ہیں کیونکہ طبیب دوار کے پاس تجربہ زیادہ ہوتا ہے اور ’’دوار‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مریضوں کی تلاش میں خودگامزن رہتے تھے کیونکہ اھل خیر قلب و روح کے امراض کو ڈھونڈتے اور انکا علاج کرتے ہیں۔ کہتے ہیں حضرت عیسی کو ایک بد کردار انسان کے گھر میں دیکھا گیا اور لوگوں اس بات پر تعجب ہوا لوگوں نے ان سے کہا، ای اللہ کے نبی آپ کا یہاں ہونا آپ کی شان کے خلاف ہے، تو آپ نے فرمایا طبیب خود مریض کی جستجو میں جاتا ہے[4] ۔

 


[1]  نھج البلاغہ ج ۱۰۸

[2] ر۔ ک ۔۔: ابن میثم بحرانی ، شرح نھج البلاغہ ، مترجمان ،محمدی مقدّم ،قربان علی، نوایی یحیی زادہ علی اصفرح ۳ ص۷۴۔۷۵ بنیاد پثروھشھای آستان قدس رضوی ابن ابی الحدید ، شرح نھج البلاغہ ج ۷ ص ۱۸۴ کتاب خانہ آیت ا۔۔۔۔۔ مرعشی نجفی قم طباعت اولی

[3] ایسے ڈاکٹروں کے مانند جن کے لئے سرحد میں معنی نہیں رکھتں وہ ھر ملک سے تعلق رکھنے والوں کا علاج یکساں کرتے ہیں

[4] ابن ابی الحدید شرح نھج البلاغہ ج ۷ ص ۱۸۴

 

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا