Please Wait
8860
قرآن ھدایت کی کتاب ھے۔ اور جو بھی ھدایت کے بارے میں ھماری ضروریات ھیں اس کتاب میں موجود ھیں۔ قرآن نے مطالب کو بیان کرنے میں اصل اور کلیات کی جانب اشاره کرنے کی روش اپنائی ھے۔ اور وه بھت کم جزئیات اور فروعی مسائل بیان کرتا ھے۔[1] شاید اس کی دلیل حد سے زیاده جزئی موضوعات کی تعداد اور احکام کی وسعت ھو۔
قرآن مجید میں اگرچھ اصل حیات اور موجودات کی انواع اور زنده موجودات کو نباتات[2] اور جانوروں میں تقسیم کیا گیا ھے۔ خشکی میں رھنے والے جانوروں کو چوپاؤں اور پرندوں[3] میں تقسیم کیا ھے۔ اور چوپاؤں کو رینگنے والے اور حیوانوں ،جو دو پاؤں[4] یا چار پاؤں پر چلتے ھیں ، کی طرف بھت اشارے ھوئے ھیں۔ اور بعض کیڑوں اور مچھلیوں اور دیگر موجودات کی جانب اشاره کیا گیا ھے اور بھت اھم نکات ان کے بارے میں بیان ھوئے ھیں۔ لیکن ڈایناسوروں اور انکی طبیعت کے بارے میں قرآن مجید میں کوئی بات بیان نھیں ھوئی ھے۔ اور اسلام نے بھی کسی خاص عقیده کا اظھار نھیں کیا ھے۔ قرآن مجید اس سلسلے میں دانشوروں اور ھر علم کے ماھرین کے اظھارات کا احترام کرتا ھے، اور اپنے دستور اور احکام کو ان کے حاصل شده نظریات کے بارے میں بیان کرتا ھے۔
جانوروں اور نباتات کے بارے میں مباحث اور انکی اقسام اور انواع اور ان کی جزئیات کے بارے میں بحث کرنا طبیعی علوم سے متعلق ھے اور ھمیں سائنس کا نقطه نظر ان کے بارے میں معلوم کرنا چاھئے۔ ڈایناسور کے بارے میں اطلاعات کے لئے قدیم حیاتیات اور معدوم شده جانوروں کے متعلق کتابوں اور میوزیموں میں جستجو کرنی چاھئے۔
جیسا کھ بیان ھوا ھے قرآن کریم اور دیگر اسلامی منابع میں طبیعت اور اس کے مظاھر اور موجودات کی طرف بھت توجھ کی گئی ھے۔ انھیں خداوند متعال کی نعمتیں اور نشانیاں، اور خدا کی عظمت اور قدرت کی علامتیں جانا گیا ھے۔ کیونکھ خدا کو پھچاننے کا ایک طریقھ مخلوقات اور خدا کے اثرات کی طرف توجھ کرنا ھے۔ اسی وجھ سےزیاده ان حیوانات کی طرف اشاره ھوا ھے جو انسانوں کی نظروں میں زیاده ھیں تاکھ خلقت میں غور و خوض کیا جائے۔
اگر سائنس قدیم اور معدوم شده جانوروں کی خصوصیات اور ان کے دور کو ثابت کرسکتا ھے تو حقیقت میں خدا کی نشانیوں میں سے ایک اور نشانی کو ثابت کیا ھے۔ جو خدا کی عظمت کو سمجھنے کیلئے ایک نئی راه ھوگی۔ جس طرح قرآن مجید کا ارشاد ھے:" آپ کهه دیجئے! کھ تم لوگ زمین میں سیر کرو اور دیکھو کھ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیا ھے اس کے بعد وھی آخرت دوباره پیدا کرے گا بیشک وه ھر شیء پر قدرت رکھنے والا ھے" [5]
تفسیر نمونھ میں اس آیھ شریفھ کی تفسیر میں آیا ھے : "آج کے دور میں اس طرح کی آیات سائنسدانوں کیلئے عمیق اور دقیق معنی بیان کرسکتی ھیں اور وه یھ ، کھ وه قدیمی موجوات کے آثار جو ڈھانچوںکی شکل میں سمندروں کی گهرائیوں اورپھاڑوں کے اندر اور زمیں کے مختلف طبقوں میں موجود ھیں انھیں دیکھه کراور زمین پر اسرار حیات کے بعض گوشوں کو بیان کرکے خداوند متعال کی عظمت اور کمال تک پھنچ جائیں اور جان لیں کھ وه دوباره زندگی دینے پر قدرت رکھتا ھے۔ [6]
ایک اور نکتھ جس کی طرف توجھ کرنی چاھئے وه یھ ھے کھ دوسرے ادیان، جن کی تعلیمات علمی مسائل (خصوصا طبیعی علوم اور خلقت کے بارے میں) کے ساتھه متناقض ھیں، اسی لئے وه سائنس کو دین سے الگ کرتے ھیں ۔ اور علمی زندگی کو دین کی زندگی سے الگ جان کر اور دینی زبان کے بے معنی ھونے کا دعویٰ کرتے ھیں۔ ان کے بالکل برعکس اسلام اور قرآنی تعلیمات کا سائنسی مسائل سے کوئی تعارض نھیں ھے اور پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے زمانے سے ھی بھت ساری سائنسی ترقیوں اور ایجادات کی جانب اشاره کیا جاسکتا ھے۔ اور علم اور عالموں کے مقام کو عظمت بخشی گئی ھے۔ اور ان کی نظریات کا احترام کرکے ان کی اھمیت کا قائل ھوا ھےاور بھت سارے علمی مسائل اور خلقت کے عجائب کے ذریعھ خلقت کی ابتدا اور معاد کی دلیلوں کے طور پر استعمال کیا ھے۔ لیکن فقھی دستور و احکام ان موجودات کو جنھیں سائنس ثابت کرتی ھے طھارت و نجاست اور حلال و حرام ھونے کی نظر سے (فقھ اسلام میں) "حقیقی قضایا " کی صورت میں بیان کرتے ھیں۔ یعنی عمومی قوانین کی صورت میں جو موضوع کے موجود ھونے کے مفروضے میں اس کے احکام اور قوانین بیان ھوئے ھیں۔ پس اگر ڈایناسور موجود ھوں یا آئنده کوئی ایسا موجود وجود میں آئے جو ڈایناسور کی خصوصیات کا حامل ھو تو اگرچھ فقھ اسلامی نے اس سلسلے میں کوئی خاص نظریھ بیان نھیں کیا ھے لیکن فقھاء ، فقھی قواعد کے مطابق بغیر کسی ابھام کے اس کے احکام کو بیان کرسکتے ھیں بالکل اسی طرح جیسے تک دسیوں مسائل مستحدثھ ( نئے مسائل ) کا استنباط کرکے ان کے حکم کو بیان کیا ھے۔
[1] مزید آگاھی کیلئے رجوع کریں ولایت اور دیانت ، ، جستارھائی در اندیشھ سیاسی اسلام ، ھادوی تھرانی ، مھدی، ص ۴۷ ۔۔ ۵۷۔
[2] " وھو الذی انزل من السماء ماء فاخرجنا بھ نبات کل شیء ۔۔ " سوره انعام / ۹۹۔
[3] " و ما من دابۃ فی الارض و طائر یطیر بجناحیھ ۔۔۔" انعام / ۳۸۔
[4] " و اللھ خلق کل دابۃ من ماء فمنھم من یمسی علی بطنھ و منھم من یمشی علی رجلین و منھم من یمشی علی اربع " سوره نور / ۴۵۔
[5] سوره عنکبوت / ۲۰۔
[6] تفسیر نمونھ : ج ۱۶۔ ص ۳۳۷۔