اعلی درجے کی تلاش
کا
14278
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2009/01/19
 
سائٹ کے کوڈ fa876 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 3991
سوال کا خلاصہ
عبدا لله بن ابی سرح کے تغییر قرآن کی داستان کے باوجود قرآن مجید کی عدم تحریف کیسے ساز گار هو سکتی هے؟
سوال
اگر قرآن مجید میں تحریف نهیں هوئی هے تو تاریخ میں کیوں آیا هے که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم قرآن مجید پڑھتے وقت بعض اوقات کلمات کو بدلتے تھے؟ حتی تاریخ میں یه بھی آیا هے که کاتبان وحی میں سے ایک شخص اس سلسله میں مرتد هوا اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے اسے سزائے موت دیدی ؟ کیا یه روایتیں صحیح هیں ؟
ایک مختصر

جن روایتوں کے بارے میں آپنے اشاره کیا هے وه عبدالله بن ابی سرح کے مرتد هو نے کی داستان سے مربوط هیں – اس شخص کے ارتداد کی کیفیت اور علت کے بارے میں تین قسم کی روایتیں نقل کی گئی هیں :

اولاً : اس کے ارتداد کی کیفیت میں اختلاف پایا جاتا هے- بعض روایتیں قرآن مجید کی تحریف اور تغییر کے سلسله میں کسی قسم کی دلالت نهیں کرتی هیں – ان میں بعض روایتیں مبهم اور مجمل هیں – صرف چند مختصر روایتوں کے مطابق قرآن مجید کی تحریف اور تغییر میں ایک قسم کی دلالت پائی جاتی هے ، لهذا یه روایتیں قابل استناد نهیں هیں –

ثانیاً : تیسرے گروه سے مربوط روایات بھی ، مرحوم شیخ صدوق (رح) کی تفسیر کے مطابق تحریف پر دلالت نهیں کرتی هیں – انهوں نے جمله " هو واحد" کے بارے میں ، جو تیسرے گروه کی ان روایتوں میں ، رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سے نقل هوا هے، لکھتے هیں : " یعنی خواه تم اس میں تغیر دو گے یا نه دو گے جو کچھـ میں املا بیان کرتا هوں وه لکھا جاتا هے نه وه جسے تم تغیر دیتے هو-"

ثالثاً :اگر هم مرحوم شیخ صدوق کی تفسیر اور توجیه کو قبول نه کریں اور اسی حالت میں سند کے لحاظ سے بھی ان روایات کو صحیح جان لیں ، پھر بھی چونکه اس قسم کی روایتیں قرآن مجید سے تضاد رکھتی هیں ، اس لئے قابل استناد نهیں هیں اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کے دستورات کے مطابق اس قسم کی روایتوں کو قبول نهیں کر نا چاهئے –

آخری نکته یه که عبدالله بن ابی سرح نے ، مرتد هو نے کے بعد ، مکه فرار کیا اور فتح مکه کے وقت بھی پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے (خلیفه) عثمان کی شفاعت کی وجه سے اسے سزائے موت نهیں دیدی اور وه عثمان کی خلافت کے زمانه میں مصر میں ان کا گورنر مقرر هوا هے –

قابل توجه بات هے که اس روایت پر سنجیدگی  سے غور کر نے کے نتیجه میں معلوم هو تا هے که ، یه روایت تحریف قرآں پر دلالت کر نے کے بجائے ، عدم تحریف پر دلالت کرتی هے ، کیونکه قرآن مجید کی عدم تحریف کے قایلین ، مخا لفین کی تحریف کی کوششوں کی نفی نهیں کرتے هیں ، بلکه ان کی اس تلاش میںکامیابی کی نفی کرتے هیں –

اس کی دلیل یه هے که ، اولاً : قرآن کے تحفظ کی ضمانت خدا وند متعال نے دی هے –

ثانیاً : قرآن مجید کی تحریف اور تغییر کے سلسله میں خود پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم محافظ اور نگهبان تھے – ابن ابی سرح کی طرف سے یه اقدام ان باطل اور ناکام کوششوں کے مصادیق میں سے هے ، جن کے ساتھـ پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم مقابله کرتے تھے اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے ان سازشوں کو ابتداء میں هی نابود کر کے رکھدیا تھا –حقیقت میں جو شخص اس روایت کے بارے میں سنجیدگی اور گهرائی سے غور کرے تو وه واضح طور پر سمجھـ سکتا هے که یه روایت قرآن مجید کی عدم تحریف پر دلالت کرتی هے، نه تحریف پر-

تفصیلی جوابات

جواب کے واضح هو نے کے لئے مندرجه ذیل نکات پر توجه کرنا ضروری هے :

اول : قرآن مجید کی عدم تحریف وتغییر قطعی و محکم ادله کے استناد پر هے که ان کے بعض عقلی ادلّه پچھلے سوالات میں بیان کئے گئے هیں، [1] یهاں پر هم بعض دوسرے ادلّوں کی طرف اشاره کرتے هیں :

١- قرآن مجید کی بعض آیات بیان کرتی هیں که قرآن مجید قابل تحریف و تغییر نهیں هے بلکه اس میں تحریف و تغییر نا ممکن هے : اس سلسله میں ارشاد الهی هے :

" جس کے قریب ، سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نهیں سکتا هے که یه خدائے حکیم و حمید کی نازل کی هوئی کتاب هے – [2] " " اور یه قرآن کسی غیر خدا کی طرف سے افترا نهیں هے بلکه اپنے ماسبق کی کتابوں کی تصدیق اور تفصیل هے جس میں کسی شک کی گنجائش نهیں هے ، یه رب العالمیں کا نازل کرده هے – [3] "

٢- وه آیات جو جدا گانه طور پر وحی کو حاصل کر نے ، اس تحفظ اور ابلاغ کے سلسله میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی عصمت کو بیان کرتی هیں :

الف : وحی کو حاصل کر نے میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی عصمت : اس سلسله میں ارشاد الهی هے : " اور آپ کو یه قرآن خدائے علیم وحکیم کی طرف سے عطا کیا جارها هے [4]

ب – قرآن مجید کی حفاظت میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی عصمت: اس سلسله میں ارشاد هے: " هم عنقریب تمهیں اس طرح پڑهائیں گےکه بهول نه سکو گے- [5]

ج – تلاوت و ابلاغ کے مقام پر پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی عصمت : " پیغمبر، ان پر آیات الهیه کی تلاوت کر تا هے- [6] " یا یه که ارشاد فر ماتا هے : " وه اپنی خواهش سے کلام بھی نهیں کر تا هے ، اس کا کلام وهی وحی هے جو مسلسل نازل هو تی رهتی هے [7] "

بلکه خداوند متعال پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کو انتباه کرتا هے که اگر وحی میں کسی قسم کی تھوڑی سی بھی تغییر انجام دیں تو انھیں بدترین عذاب سے دو چار کرے گا :

" اور اگر یه پیغمبر هماری طرف سے کوئی بات گڑھـ لیتا تو هم اس کے هاتھـ پکڑ لیتے اور پھر اس کی گردن اڑا دیتے پھر تم میں سے کوئی مجھے روکنے والا نه هو تا – [8] "

٣- وه آیات جو بیان کرتی هیں که پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم قرآن مجید میں کسی قسم کی تغییر و تبدیلی کا حق نهیں رکھتے هیں : اس سلسله میں ارشاد هوتا هے: " --- تو آپ کهدیجئے که مجھے اپنی طرف سے بدلنے کا کوئی اختیار نهیں هے میں توصرف اس امر کا اتباع کرتا هوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی هے [9] -

٤- وه روایات جن سے عدم تحریف اور تغییر کا استفاده کیا جاتا هے : اس سلسله میں هم نمو نه کے طور پر صرف ایک روایت کی طرف اشاره کر نے پر اکتفا کرتے هیں :

پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا : " میں تم میں دو گراں قیمت چیزیں چھوڑے جاتا هوں ، کتاب خدا اور میری عترت اهل بیت (ع) – یه دو نوں کبھی جدا نه هوں گے یهاں تک که حوض کوثر پر میرے پاس پهنچیں گے – [10] "

یه روایت ، جسے شیعه اور سنی دونوں قبول کرتے هیں ، بیان کرتی هے که قرآن مجید قیامت تک استناد کر نے کی صلاحیت رکھتا هے اور لوگوں پر حجت هے- واضح هے که اگر قرآن مجید قابل تحریف و تغییر هو تا ، تو استناد اور دین کا منبع هو نے کی صلاحیت نهیں رکھتا-

دوم : پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام سے متعدد روایتیں نقل کی گئی هیں جن سے معلوم هو تا هے که احادیث کو قبول یا مسترد کر نے کا معیار ان احادیث کا قرآن مجید کے موافق یا مخالف هو نا هے –

هم ذیل میں ان احادیث کے چند نمو نے پیش کرتے هیں :

پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا : " جو چیز کتاب خدا کے موافق هو اسے قبول کرو اور جوچیز قرآن مجید کے موافق نه هو اسے قبول نه کر نا – [11] "

امام صادق علیه السلام فر ماتے هیں : " هم سے کوئی حدیث قبول نه کر نا ، مگر یه که وه قرآن کے موافق هو اور جو بات همارے پروردگار کے کلام کے مخالف هو اسے قبول نه کرنا- [12] "

نتیجتاً ، جن روایتوں کے بارے میں آپ نے اشاره کیا هے ، اگر وه سند و دلالت اور مفهوم و محتوی کے لحاظ سے صحیح هوتیں تو قابل قبول تھیں ، لکین یه روایات پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کے دستورات کے مطابق قرآن مجید کی متعدد آیات کے مخالف ھیں اس لئے انهیں قبول نهیں کرنا چ اهئے اور استناد کے ل ح ا ظ سے ان کی کوئ قدر و قیمت نهیں هےـ

سوّم : جن روایتوں کےبارے میں آپنے اشاره کیا هے،وه عبد الله بن ابی سرح کے ارتداد کی داستان سے مربوط هیں –

مذ کوره شخص کے ارتداد کی کیفیت اور علت کے بارے میں تین قسم کی روایتیں نقل هوئی هیں :

الف- بعض روایتوں میں یوں آیا هے :" پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے سوره تین کی آیات کو اس (عبدالله بن اسرح) کے لئے املا فر مایا اور وه لکھتا تھا- یهاں تک آیه " ثم انشا ناه خلقاً آخر" پر پهنچ گئے – ابن ابی سرح خداوند متعال کے انسان کو خلق کر نے کی کیفیت پر حیرت میں پڑ گیا اور کها : " فتبارک الله احسن الخالقین –" پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآه وسلم نے فر مایا : لکهو " فتبارک الله احسن الخا لقین –" اور یهی بات ابن ابی سرح کے دل میں وسواس پیدا هو نے کا سبب بنی اور اس نے اپنے آپ سے کها اگر حقیقت میں یه وحی هے ، تو مجھـ پر بھی وحی نازل هوتی هے – اور اگر جھوٹ هے تو (نعوذبالله) پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم جھوٹ بولتے هیں –اس لئے وه مرتد هو اور مکه بھاگ گیا- [13]

ب- بعض دوسری روایتوں میں آیا هے که ابن ابی سرح وحی لکھنے کے دوران اس میں کچھـ تغییرات ایجاد کرتا تھا اور یهی امر اس بات کا سبب بنا که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے اسے کتابت کے عهده سے معزول کیا اور وه مرتد هوکر مکه بهاگ گیا [14]

ج- فیض کا شانی نے حضرت امام جعفر صادق علیه السلام سے نقل کیا هے :" عبدالله بن سعد بن ابی سرح ، عثمان کا رضاعی بھائی تھا، وه خوش خط لکھتا تھا ، جب بھی رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم پر وحی نازل هوتی تھی ، اسے بلایا جاتا تھا اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم وحی کو پڑھتے تھے اور وه لکھتا تھا ، لیکن وه " سمیع بصیر" کے بجائے " سمیع علیم " اور بما تعملون خبیر " کے بجائے " بما تعملون بصیر " لکھتا تھا ، اور "ی " کی جگه پر " ت" اور "ت" کی جگه پر "ی" لکهتا تھا ، اس کے باوجود آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم فر ماتے تھے " هو واحد" " کوئی فرق نهیں هے یه سب ایک هی هیں " سر انجام یه شخص مرتد هوا اور مکه بهاگ گیا اور وهاں پر قریش سے کها : " خدا کی قسم ، محمد (ص) نهیں جانتے تھے که کیا کهتے هیں ، میں بھی ان کے مانند کهنے کی قدرت رکھتا هوں اور ان کے مانند آیت نازل کر سکتا هوں [15]

اس کلام کا نتیجه :

اولاً : یه روایات چونکه ارتداد کی کیفیت کے بارے میں اختلاف رکھتی هیں ، اس لئے صحیح طور پر ان سے استناد نهیں کیا جا سکتا هے ، چونکه پهلی حدیث کے مطابق تغییر و تحریف کے بارے میں کوئی دلیل موجود نهیں هے ، کیونکه اس میں کوئی منافات نهیں هے که جوابی سرح کے دل میں تصور پیدا هوا وهی وحی الهی هو اور وهی بات اس سے پهلے پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے دل پر نازل هوئی هو- اور دوسری حدیث مبهم اور مجمل هے – صرف تیسری حدیث تغییر اور تحریف پر دلالت کرتی هے-

ثانیاً : مرحوم شیخ صدوق (رح) پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے اس کلام "و واحد" کے بارے میں لکھتے هیں : " یعنی خواه تم اس میں تغییر ایجاد کرو یا نه کرو میں جو املا کهتا هوں وهی لکها جاتا هے نه وه چیز جو تم تغییر دیتے هو- [16] "

پس اگر یه روایت ( یعنی تیسری حدیث کے مطابق ) سند کے لحاظ سے دورست اور صحیح هو، تو ایسا لگتا هے که شیخ صدق کی تفسیر اور توجیه قابل قبول هے- کیونکه یه تفسیر ، حقیقت میں قرآن مجید کی آیات کے مطابق هے، جس میں ارشاد هوتا هے : " قرآن تغییر اور تحریف کے قابل نهیں هے –" اس کے علاوه وه آیات جن میں یه بیان هوا هے که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم وحی کو وصول کر نے ، حفاظت اور ابلاغ کر نے میں معصوم هیں اور غلطی نهیں کرتے هیں –

 

 

ثا لثاً : اگر هم مرحوم شیخ صدوق کی تفسیر و توجیه کو قبول نه کریں اور سند کے لحاظ سے بھی صحیح هو، جیسا که هم نے دوسرے نکته میں بیان کیا ، تو اس قسم کی روایتیں واضح طور پر قرآن مجید کے مخالف هیں اس لئے استناد کی قابلیت نهیں رکھتی هیں اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کے دستورات کے مطابق اس قسم کی روایتوں کو قبول نهیں کر نا چاهئے –

چهارم :

مرتد هو نے کے بعد عبدالله بن ابی سرح مکه بهاگ گیا اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے فتح مکه کے موقع پر (خلیفه سوم) عثمان کی سفارش اور شفاعت کی وجه سے اسے سزائے موت نهیں دی اور بعد میں وه عثمان کی خلافت کے دوران مصر کا گورنر مقرر کیا گیا [17]

قابل ذکر بات هے که اس روایت سے معلوم هو تا هے که ، یه روایت تحریف قرآن کی دلالت کر نے کے بجائے عدم تحریف پر دلالت کرتی هے-

کیونکه قرآن مجید کی عدم تحریف کے قائل افراد ، تحریف کے سلسله میں مخالفین کی کوششوں کی نفی نهیں کرتے هیں ، بلکه ان کی ان کو ششوں میں کامیابی کی نفی کرتے هیں

اس کی دلیل یه هے که :

اولاً : قرآن مجید کی حفاظت کی ضمانت خداوند متعال کی طرف سے دی گئی هے-

ثانیاً ; پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم قرآن مجید میں تحریف وتغییر کے سلسله میں محافظ و نگهبان تھے –ابن ابی سرح کی طرف سے یه اقدام ان باطل اور ناکام کوششوں کے مصادیق میں سے ایک مصداق هے، جن کے ساتھـ پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم مقابله کرتے تھے اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے ان سازشوں کا ابتداء میں هی گلا گهونٹ کر رکھـ دیا تھا – حقیقت میں جو شخص اس روایت پر سنجیدگی اور گهرائی سے غور کرے تو وه واضح طور پر سمجھـ سکتا هے که یه روایت قرآن مجید کی عدم تحریف پر دلالت کرتی هے ، نه تحریف پر-



[1]     ملاحظه هو: عنوان: "عدم تحریف قرآن "،سوال 3843 (سایت: 4112)-

[2]   - سوره فصلت،٤٢-

[3]   - سوره یونس ،٣٧-

[4]   - سوره نمل ،٦-

[5]   - سوره اعلی ،٦-

[6]   - سوره آل عمران ،١٦٤-

[7]   - سوره نجم ،٣ و٤-

[8]   - سوره الحاقه ،٤٤تا ٤٧-

[9]   - سوره یونس ،١٥-

[10]   - مسند احمد ،حدیث١٠٦٨١، سنن ترمذی ،حدیث٣٧٢،مستدرک حاکم ،ج٣ ،ص١٠٩-

[11]   - کافی ،ج١، ص١٠٩-

[12]   - بحارالانوار ،ج ٢، ٢٤٩-

[13]   - ایضًاً ، ج ٢٢،ص٣٤-

[14]   - تفسیر عیاشی ،ج١،ص٣٦٩-

[15]   - فیض کاشانی ،تفسیر الصافی ،ج٢،ص١٤٠ ذیل آیه ٩٣،سوره انعام ، تهران ، مکتبۃ الاسلامیه-

[16]   - صدوق، معانی الاخبار ،به نقل از بحار الانوار ،ج٩٢، باب٣،ص٣٥-

[17]   - بحار الانوار ، ج ١٧،ص١٧٨-

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا