Please Wait
8878
مرد اور عورت آپس میں متعدد فرق رکھتے ھیں۔ چاھے وه جسمانی ، روحانی یا جذباتی فرق ھو، جس کا لازمھ یھ ھے کھ عالم طبیعت میں ان کا کردار اور عمل ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ھے۔ ان سب اختلافات اور امتیازات کے باوجود اسلام کا نقطھ نظر ان کے بارے میں عدالت پر مبنی ھے اور مرد اور عورت کے درمیان عدالت برقرار ھونے کا لازمھ یھ ھے کھ ان کے حقوق ، فرائض اور ذمھ داریوں میں اعتدال اور توازن برقرار رھے۔
عورت اور مرد کے باھمی حقوق میں ایک حق میراث کا ھے، اور اسلام کے نقطھ نظر سے عورت کی میراث مرد کی آدھی میراث کے برابر ھے ، یھ فرق مالی طور پر ان کی ذمھ داریاں مختلف ھونے کی وجھ سے ھے ، جن میں نفقھ من جملھ روٹی ، کپڑا ، اور مکان ، عورت کا مھر ، دیتِ عاقلھ، جھاد اور اس کے مالی اخراجات وغیره شامل ھیں جو صرف اسلام میں مرد کے ذمھ ھیں اور ان کی نسبت عورت کی کوئی ذمھ داری نھیں ھے۔
مرد اور عوت کے درمیان جسمانی ، روحانی اور جذباتی لحاظ سے متعدد فرق موجود ھیں۔ جو سب کے لئے قابل قبول ھیں ۔
پروفیسر " ریک " جس نے سالوں سال تک مرد اور عورت کے حالات پر تحقیق اور جستجو کی ھے۔ اس نے ان دونوں کے فرق کے بارے میں بھت سی کتابیں لکھی ھیں وه کھتے ھیں " مرد اور عورت کے جسم آپس میں مختلف ھیں اور ترکیب کے لحاظ سے فرق رکھتے ھیں ان دونوں کے جذبات کبھی بھی ایک جیسے نھیں ھوسکتے ھیں وه ان دو کے علاوه مرد اور عورت کے درمیان اور بھی فرق کا بھی ذکر کرتا ھے [1]
اسلام کے نقطھ نظر سے مرد اور عورت ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے دو انسان ھیں جو ایک دوسرے کے سخت محتاج ھیں اور ان میں ھر ایک دوسرے کے بغیر ناقص ھے۔ پس اس لحاظ سے وه کبھی بھی ھر لحاط سے ایک دوسرے کے مانند نھیں ھوسکتے ھیں، اور ان کا آپس میں جسمانی اور روحانی طور سے ناقابل انکار فرق موجود ھے۔ جو کھ عالم خلقت میں ان کے کردار اور فرائض الگ الگ ھونے کا سبب ھے۔ کیونکھ اگر وه دونوں لحاظ سے ایک دوسرےکے مساوی ھوتے تو وه ایک دوسرے کی ضروریات پوری نھیں کرسکتے ۔
ان سب اختلافات کے باوجود اسلام کھتا ھے کھ ان کے درمیان عدالت برقرار ھونی چاھئے اور مرد اور عورت کے درمیان عدالت برقرار ھونے کا لازمھ یھ ھے کھ دونوں کے حقوق مختلف اور ان کے فرائض ان کی طاقت کے مطابق ھوں، کیوں کھ اگر مرد اور عورت کی طاقت، ذمھ داریاں اور فرائض مختلف ھوں اور ان کے حقوق مساوی ھوں تو یقینی طور پر کسی ایک پر ظلم ھوگا۔
مرد اور عورت کے حقوق میں ایک حق، ایک دوسرے سے میراث لینے کا حق ھے۔ گزشتھ ملتوں کی تاریخ اور آنحضرت (ص) کے زمانے کے نزدیک رھنے والے لوگوں سے اس بات کا اندازه لگایا جاسکتا ھے کھ روم ، قدیم یونان ، ھندوستان مصر اور چین اور عرب کے لوگوں میں عورتوں کو میراث لینے کا کوئی حق نھیں ھوتا تھا۔ [2]
اسلام نے اس ماحول میں غلط سماجی رواج کو توڑ کر عدالت کی بنیاد پر میراث کے قوانین کی بنیاد ڈالی اور میراث کی آیات کو دنیاوی سماج میں نازل کیا۔
اسلام کی نظر میں ، بیٹا ، بیٹی سے دوگنی ، بھائی بھن سے دوگنی اور شوھر بیوی سے دوگنی میراث[3] لیتا ھے ، صرف ماں اور باپ کے بارے میں ھے کھ اگر میت صاحب فرزند ھو اور اس کے ماں باپ بھی زنده ھوں تو ماں اور باپ دونوں میت سے ایک چھٹا حصّه کو مساوی طورپر میراث لیتے ھیں۔
روایات میں اس تفاوف میراث کے سبب کو فرائض اور مالی اخراجات سے متعلق جانا گیا ھے جو صرف مرد کے شانوں پر رکھا گیا ھے اور عورت کا اس بارے میں کوئی فرض نھیں ھے۔ جیسے مالی اخراجات کرنا :
الف : مھر ، اسلامی احکام میں ایک مالی حق جو مرد کو عورت کی جانب ادا کرنا ھے "مھر" ھے۔ بعض روایات میں [4] عورت کی میراث کم ھونے کی دلیل کو اس کا مھر لینا بیان کیا گیا ھے ۔
ب: نفقھ : مالی اخراجات جیسے روٹی ، کپڑا اور مکان وغیره ، یھ مالی خرچ مرد کے مال کے ایک بھت بڑے حصے کو شامل ھوتے ھیں اور اگر پوری زندگی میں مرد ان اخراجات کو جمع کرے توشاید یھ اخراجات دسیوں گنا زیاده ھوں گے۔ جو صرف مردکے ذمے ھیں اور اگر اس کے ذمھ یھ اخراجات نھ ھوتے یا وه انھیں ادا نھ کرے ، عورت مجبور ھے کھ خود ھی ان اخراجات کو ادا کرے۔ روایات میں عورت کی میراث نصف ھونے کی ایک اور دلیل ان اخراجات کی ادائیگی مانا گیا ھے۔ [5]
ج : خطائی قتل میں دیت کا ادا کرنا: اگر کوئی شخص سھواً قتل کرے تو اس کی دیھ عاقلھ ( رشتھ داروں کے اوپر ھے ) او دیھ عاقلھ صرف مردوں کے اوپر واجب ھے جبکھ عورتوں پر یھ واجب نھیں ھے۔
د : جھاد : ایک اور دلیل جو روایت میں مرد کی میراث زیاده ھونے کےبارے میں وارد ھوئی ھے مردوں پر جھاد کا واجب ھونا ھے ( اسی کے مال سے جھاد کے اخراجات کا ادا کرنا)
یھ چند مواقع سبب بنے ھیں کھ عورت کی میراث مرد سے کم ھو۔
جب یھ سوال حضرت امام صادق علیھ السلام سے ھوا تو حضرت نے اس اختلاف کو میراث میں اس طرح بیان کیا ھے : یھ اس لئے ھے کھ اسلام نے جھاد کو عورتوں کے شانوں سے اٹھایا ھے اور اس کے علاوه مھر اور نفقھ کو مرد کے اوپر معین کیا ھے اور بعض سھوی قتل میں جو خرچ قاتل کے رشتھ داروں کو ادا کرنا ھے ( دیت عاقلھ ) عورت کو اس دیت کے ادا کرنے سے معاف کیا گیا ھے اور ان میں سے کوئی بھی خرچ عورت کے اوپر نھیں ھے پس اس کا ارث مرد سے کم ھے۔ [6]
مزید آگاھی کیلئے رجوع کریں:
۔ مرد اور عورت کی میراث کے برابر ھونے کے موارد: سوال ۵۳۶ (سائٹ نمبر: ).
۔۔ فقھ اسلامی میں مرد اور عورت کی میراث میں فرق سوال نمبر ۱۱۶ ( سائٹ نمبر:).
[1] نظام حقوق زن در اسلام ،مرتضی مطھری ص ۱۶۶۔
[2] ترجمھ تفسیر المیزان ، ج ۴ ص ۵۷ أ ۳۵۴۔
[3] سوره نساء / ۱۲۔
[4] علل الشرائع ، ج ۲ ص ۲۹۳۔ چاپ اعلمی۔ بیروت۔
[5] کنز العرفان ، فاضل مقداد، ص ۶۴۵۔
[6] الکافی ، ج ۷ ص ۸۵۔ علی بن محمد ن محمد بں ابی عبدا للھ عن اسحاق بن محمد النخعی ، قال سال الفھفکی ابا محمد علیھ السلام ، ما بال المرأۃ المسکینۃ الضعیفۃ ، تاخذ سھما و احدا و یاخذ الرجل سھمین فقال ابو محمد علیھ السلام ان المرأۃ لیس علیھا جھاد و لا نفقۃ و لا علیھا معقلۃ اانما ذلک علی الرجال۔