Please Wait
کا
11532
11532
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2015/05/04
سوال کا خلاصہ
شیخ طوسی کون تھے؟
سوال
مہربانی کرکے میرے لئے شیخ طوسی کی سوانح حیات ارسال کیجئے۔
ایک مختصر
پانچویں صدی ہجری کے نامور متکلم، فقیہ، مفسّر، اور عظیم محدث محمد بن حسن بن علی طوسی رمضان المبارک سنہ 385 ھ ق میں شہر طوس میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مقدماتی علوم کی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی۔
ان کا خاندان، کئی نسلوں تک علماء و فقہا پر مشتمل تھا۔ شیخ طوسی، اپنی بابرکت زندگی میں کافی دکھ تکلیف اٹھانے کے بعد اپنے زمانہ کے بلند ترین علمی اور اجتماعی مقام پر فائز ہوئے اور شیعوں کے سب سے بڑے دانشور کے نام سے شہرت پائی۔
فقہ و کلام میں ان کے موثر ترین اساتذہ شیخ مفید( متوفی: 413ھ ق) اور سید مرتضی( متوفی: 436) تھے۔
شیخ طوسی نے 22 محرم سنہ 460 ھ ق کو نجف اشرف میں وفات پائی۔
ان کا خاندان، کئی نسلوں تک علماء و فقہا پر مشتمل تھا۔ شیخ طوسی، اپنی بابرکت زندگی میں کافی دکھ تکلیف اٹھانے کے بعد اپنے زمانہ کے بلند ترین علمی اور اجتماعی مقام پر فائز ہوئے اور شیعوں کے سب سے بڑے دانشور کے نام سے شہرت پائی۔
فقہ و کلام میں ان کے موثر ترین اساتذہ شیخ مفید( متوفی: 413ھ ق) اور سید مرتضی( متوفی: 436) تھے۔
شیخ طوسی نے 22 محرم سنہ 460 ھ ق کو نجف اشرف میں وفات پائی۔
تفصیلی جوابات
محمد بن حسن بن علی طوسی ( 385۔ 460ھ ق) ، عالم اسلام کے ایک نامور متکلم، فقیہ، مفسّر اور بڑے محدث ہیں۔ وہ رمضان المبارک سنہ 385 ھ ق میں طوس پیدا ہوئے ہیں اور وہیں پر مقدمات کی تعلیم حاصل کی اور سنہ 408 ھ ق میں بغداد گئے۔[1] اس زمانہ میں، بغداد عالم اسلام کا علمی مرکز اور حکومت اسلامی کا داراخلافہ تھا اور شیخ مفید اس وقت مذہب جعفری کے زعیم تھے۔
شیخ طوسی پانچ سال تک، یعنی شیخ مفید کی سنہ 413 ھ ق مین وفات ت اس مرجع عالیقدر کے حضور میں علمی فیض حاصل کرتے رہے۔ دینی زعامت اور مذہب شیعہ کی ریاست سید مرتضی کو منتقل ہونے کے بعد شیخ طوسی 23 سال تک، سید مرتضی کے سنہ 436 ھ ق میں رحلت تک ان کے مکتب علمی سے فیضیاب ہوتے رہے اور ان کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے تھے، چنانچہ سید مرتضی دوسرے شاگردوں کی بہ نسبت ان کی طرف زیادہ توجہ دیتے تھے،
سید مرتضی کی وفات کے بعد، شیخ طوسی نے شیعوں کی زعامت کی عظیم ذمہ داری سنبھالی،[2] اور بغداد میں تدریس اور تالیف کے علاوہ اعتقادی اور فقہی شبہات سے متعلق سوالات کا جواب دینے میں مشغول ہوئے۔ یہاں تک کہ سنہ 447 ھ ق میں طغرل بغداد آگیا اور شیعوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ اس حادثہ میں شیخ طوسی کا گھر، کتابخانہ اور درس گاہ بھی جل کر راکھ ہوئے۔
بالآخر سیاسی حالات بدلنے اور رونما ہونے والے حوادث کے پیش نظر شیخ طوسی نے نجف اشرف ہجرت کی۔[3]
شیخ طوسی کا شجرہ نسب اور خاندان:
شیخ طوسی کا خاندان کئی نسلوں تک علماء و فقہا پر مشتمل تھا۔ ان کے باپ کا نام حسن بن علی طوسی تھا۔ وہ خراسان کے شہر طوس کے رہنے والے تھے۔ نجاشی نے شیخ طوسی کے نام اور شجرہ نسب کو حسب ذیل درج کیا ہے:
" محمد بن الحسن بن علی الطوسی، ابو جعفر جلیل فی اصحابنا، ثقہ عین"۔[4]
شیخ طوسی کے مشہورالقاب:
اہل سنت مورخین اور ترجمہ نگاروں نے ان کے بارے میں ان عناوین سے یاد کیا ہے:" فقیہ الشیعه"[5]
اور" شیخ الشیعه و عالمھم"[6]امامیہ کے ہاں ان کا مشہور ترین لقب " شیخ الطائفه" ہے۔[7]
شیخ طوسی کی تعلیم اور تجربے
شیخ طوسی نے اپنی بابرکت زندگی میں کافی رنج و مصیبتیں برداشت کی ہیں اور سخت ترین سیاسی اوراجتماعی حالات میں اپنے زمانہ ک بلند ترین علمی مقام پر فائز ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اس زمانہ میں بغداد شیعہ اور سنی دانشوروں کے درمیان آزاد علمی مباحث اور عقیدتی تبادلہ خیال کا مرکز تھا۔ ان سب میں ممتاز اور بزرگترین شخصیت محمد بن محمد بن نعمان( شیخ مفید) تھے۔
جب شیخ طوسی بغداد میں داخل ہوئے، شیخ مفید کے حضور زانوئے ادب تہ کرکے ان سے علمی فیض حاصل کیا اور مختصر مدت میں استاد کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے استاد کے دوسرے شاگردوں پر برتری حاصل کی۔
علم و دانش کے ذریعہ بلند ترین مقصد تک پہنچنے کے لئے ان کی استعدادی اور انتھک کوششیں اس امر کا سبب بنیں کہ دوسرے لوگوں نے بھی ان کی لیاقت کا اعترا ف کیا اور وہ دو اہم اور حساس عہدوں پر فائزہوئے، ان میں سے ایک شیعوں کی علمی اور دینی زعامت و مرجعیت تھی اور وہ بھی بغداد میں مخالفوں اور بڑے شیعہ و سنی دانشوروں کے درمیان، دوسرا، خلیفہ وقت کی طرف سے علم کلام کی کرسی پر فائز ہونا تھا۔ یہ ایک بلند مقام تھا اور آسانی کے ساتھ کوئی اس پر فائزنہیں ہوسکتا تھا۔ یہ مقام اس زمانہ کے دانشوروں میں سے ممتاز شخص کو ملتا تھا اور شیخ طوسی نے ثابت کیا کہ وہ اس مقام کی لیاقت رکھتے ہیں اور اسے حق بجانب حاصل کیا ہے۔[8]
شیخ طوسی نے کتاب " تہذیب الاحکام"، جو شیعوں کی قابل توجہ اور مشہور کتاب ہے، کو جوانی میں تالیف کیا ہے۔[9] اور یہ بذات خود ان کی جوانی میں اجتہاد کے درجہ پر فائز ہونے کی ایک مستحکم سند ہے۔
بہت سے محققین شیخ طوسی کو، اسلامی ثقافت و تمدن میں تشیّع کے آئین اور لائحہ عمل کو تدوین کرنے والا سمجھتے ہیں۔
علامہ حلّی اس سلسلہ میں کہتے ہیں:
" شیخ طوسی، شیعہ دانشوروں کے پیشوا، رئیس طائفہ امامیہ، علوم اخبار، رجال، فقہ، اصول، کلام اور ادب میں صاحب نظر تھے۔ انھوں نے شیعہ عقائد کو اس کے اصول و فروع میں طبقہ بندی کرکے اس کی اصلاح کی ہے"۔[10]
علم کلام میں شیخ طوسی کے نئے طرز نے عالم اسلام کے مختلف ممالک کے طلبہ کو یہ علم حاصل کرنے کی ہمت افزائی کی اور انھیں دنیا کے دوردراز علاقوں سے اپنی طرف جذب کیا، حتی دوسرے دانشور اور فقہا بھی پیدا شدہ مسائل و مشکلات کو شیخ طوسی کی خدمت میں لے جاتے تھے تاکہ وہ ان مطالب کے صحیح یا غلط ہونے کی تشخیص دیں اور ان سے راہ حل کے بارے میں آگاہ ہو جائیں۔
شیخ، اپنے کتاب خانہ اور قلمی نسخوں کو آتش سوزی میں کھوچکے تھے اس لئے وہ اپنی باقی ماندہ زندگی سے پورا پورا استفادہ کرنے کے لئے بیشتر سنجیدگی کے ساتھ علوم اسلامی کے بارے میں تحقیق و تدریس میں لگ گئے۔ نجف اشرف کے علمی مرکز کے وجود کو شیخ طوسی جیسے استاد کی موجودگی نے اس قدر اہمیت بخشی کہ، صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس وقت اس کی پائیداری اور استحکام مشہود ہے۔[11]
شیخ طوسی کے اساتذہ
فقہ و کلام میں شیخ طوسی کے اہم اور تاثیر گزار اساتذہ میں: شیخ مفید( متوفی: 413 ھ ق) اور سید مرتضی علم الھدی( متوفی: 436ھ ق) قابل ذکر ہیں۔[12]
شیخ طوسی، شیخ مفید کی متعدد تالیفت کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:" ان تمام کتابوں کو بارہا ان سے سنا ہے اور ان میں سے بعض کو ان کے لئے پڑھا ہے اور بعض کو دوسروں نے ان کے لئے پڑھا ہے اور انھوں نے سنا ہے"۔[13]
اسی طرح سید مرتضی کی بہت سی تالیفات کا ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ: ان کی اکثر کتابوں کو ان کے لئے پڑھا گیا ہے اور ان میں سے بعض کو جب ان کے لئے پڑھاجاتا تھا، تو انہوں نے انھیں بار ہا سنا ہے۔[14]
شیخ طوسی کے بعض دوسرے اساتذہ حسب ذیل ہیں:
ابو عبداللہ حسین بن عبداللہ غضائری، ابو عبداللہ احمد بن عبدالواحد البزار، مشہور بہ ابن عبدون، احمد بن موسی، مشہور بہ ابن صلت اہوازی، ابوالحسین علی بن احمد بن محمد بن ابی جید قمی، ابوالقاسم علی بن شبل بن اسد الوکیل، جعفر بن حسین بن حسکہ قمی۔[15]
وفات شیخ طوسی
شیخ طوسی 22 محرم سنہ 460 ھ ق میں نجف اشرف میں وفات پاگئے۔[16] البتہ بعضوں نے ان کی وفات کی تاریخ کو آخر محرم 458[17] یا سنہ 461[18] اعلان کیا ہے۔
شیخ طوسی کی ذاتی خصوصیات
شیخ طوسی کی ذاتی خصوصیات کے بارے میں ہم صرف بعض بزرگوں کے کلام کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
1۔ نجاشی (متوفی 450ھ ق): وہ امامیہ علماء میں سے اور ہمارے زمانہ کے قابل اعتماد اور سرشناس شخصیت ہیں۔ وہ ہمارے استاد ابو عبداللہ مفید کے شاگرد تھے اور کئی کتابوں کے مولف ہیں"۔[19]
2۔ علامہ حلّی ( متوفی 726) :" مذہب امامیہ کے رئیس اور گراں قدر شیخ، قابل اعتماد، مشہور صادق، آگاہ اور حدیث، رجال، فقہ، اصول و فروع کے عالم تھے۔ اس کے علاوہ علم و عمل میں جامع کمالات نفسانی کے مالک تھے۔" [20]
3۔ شیخ عبدالجلیل قزوینی:" ان کا فضل و زھد اظہر من الشمس تھا"۔[21]
خلاصہ یہ کہ، شیخ طوسی، فقہی، اصولی، حدیثی، کلامی، رجالی اور ادبی جیسے مختلف علمی ابعاد کے زاویہ سے بلند ترین مقام پر قرار پائے تھے۔ وہ تمام اسلامی علوم، من جملہ، قرآن، فقہ، اصول، کلام، رجال، حدیث، تفسیر اور ادبیات میں متبحّر اور صاحب نظر تھے۔
شیخ طوسی کے ادبی پہلو کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: باوجودیکہ وہ عرب زبان نہیں تھے، لیکن اپنے سرشار استعداد اور ذوق و شوق کے پیش نظر عربی ادبیات میں ایک بلند مقام حاصل کرچکے تھے جس کا جلوہ اُن کی گراں قیمت تفسیر" تبیان" میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔[22]
حوزہ علمیہ نجف کی تاسیس
شیخ طوسی کی ہجرت سے پہلے نجف اشرف ایک ایسی سرزمین تھی جس میں بعض علوی اور امام علی علیہ السلام کے خاص شیعہ سکونت کرتے تھے۔ لیکن شیخ طوسی کی اس شہر میں ہجرت کے بعد علوم اسلامی کے طلبہ نے نجف اشرف کو امامی شیعوں کی ایک یونیورسٹی اور مرکز میں تبدیل کیا۔ اس کے بعد اس یونیورسٹی میں ہزاروں طلبہ اور شیعہ مفکرین تربیت پاکر معارف اہل بیت (ع) کی ترویج میں فعال ہوئے ہیں، اگرچہ شیخ طوسی سے پہلے بھی نجف میں مرقد امیرالمومنین (ع) کے جوار میں درس و بحث کا سلسلہ چل رہا تھا اور حوزہ علمیہ تشکیل پاچکا تھا۔[23]
حوزہ علمیہ نجف کی تاسیس کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں:
ایک گروہ کا یہ اعتقاد ہے کہ سنہ 448ھ ق میں شیخ طوسی کی بغداد سے نجف اشرف ہجرت کے بعد انھوں نے حوزہ علمیہ کی تاسیس کی ہے۔
کچھ لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ شیخ طوسی کے آنے سے پہلے، نجف اشرف میں امیر المومنین(ع) کے مرقد کے جوار میں درس و بحث کا سلسلہ چل رہا تھا اور حوزہ علمیہ تشکیل پا چکا تھا۔[24]
بہرحال، ایک اور گروہ شیخ طوسی سے پہلے نجف اشرف میں دانشوروں کی رفت و آمد اور علمی کوششون کا اعتراف کرنے کے باوجود اعتقاد رکھتے ہیں کہ نجف اشرف نے باقاعدہ طور پر حوزہ علمیہ کی شکل شیخ طوسی کی آمد کے بعد اختیار کی ہے۔[25]
شیخ طوسی کے نجف اشرف پہنچنے کا زمانہ، طغرل بیک سلجوقی کے بغداد میں داخل ہونے اور شیخ کے گھر اور کتاب خانہ کو نذرآتش کرنے کے بعد تھا۔[26] کچھ مدت کے بعد شیخ نے اس شہر میں اپنی علمی فعالیتوں کو شروع کیا اور نجف اشرف کا عظیم حوزہ علمیہ ان کی کوششوں کے نتیجہ میں وجود میں آیا ہے۔ شیخ طوسی نے اس زمانہ میں نجف کی نامنظم و ناگفتہ بہ حالت کو نظم و انتظام بخشا اور اس کے بعد شیعہ علماء کی رفت و آمد بھی شروع ہوئی اور اس طرح شیخ نے ایک خاص نظم و انتظام کے تحت درس و بحث کا سلسلہ شروع کیا۔
شیخ طوسی کی تالیفات
شیخ طوسی نے دینی علوم کے سلسلہ میں مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں تالیف و تصنیف کی ہیں۔
قزوینی رازی ان کی تالیفات، مختلف علمی موضوعات پر دوسو جلد کتابیں بتاتے ہیں۔[27]
اس کے علاوہ شیخ طوسی کی تالیفات کی ایک فہرست کو خود ان کی " الفھرست"[28] میں دیکھا جاسکتا ہے جو نجاشی[29] کی " فھرست" اور ابن شہر آشوب[30] کی" معالم العلماء" میں درج کی گئی ہے۔ یہاں پر ہم ان کی بعض مشہور کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1۔ " التبیان فی تفسیر القران"[31]
2۔ " تھذیب الاحکام"۔ یہ کتاب، شیعوں کی ایک معتبر ترین حدیث کی کتاب ہے اور کتب اربعہ میں تیسری کتاب شمار ہوتی ہے۔ شیخ طوسی نے یہ کتاب اپنے استاد شیخ مفید کی کتاب" المقنعه" کی وضاحت اور شرح کے عنوان سے تالیف کی ہے۔
3۔" الاستبصار فیما اختلف من الاخبار" یعنی اہل بیت(ع) سے روایت کی گئی اختلافی روایتوں کا مجموعہ۔ شیخ طوسی نے اس کتاب میں فقہ کے گونا گون مباحث کے بارے میں نقل کی گئی تمام روایتوں اور ان کے بر خلاف نقل کی گئی روایتوں کو جمع کیا ہے۔
4۔ " الامالی": یہ کتاب ان روایتوں پر مشتمل ہے، جنھیں شیخ طوسی نجف میں اپنے منظم درس کے جلسات میں اپنے شاگردوں کے لئے املاء کرتے تھے۔
5۔" النھایه فی مجرد الفقہ والفتاوی"۔ یہ کتاب قدماء کی معتبرترین فقہی کتاب اور شیخ طوسی کی مشہور ترین تالیف ہے، یہ کتاب طہارت سے دیات تک فقہ کے فتاوی پر مشتمل ایک مکمل دورہ ہے۔
6۔ " المبسوط"۔ اس کتاب کا فقہی طرز، فقہ استدلال مقارنہ پر مشتمل ہے، کیونکہ مولف نے پوری کتاب میں اہل سنت کے نظریات کی تحقیق کی ہے اور ان کی فقہ شیعہ سے تطبیق کی ہے۔
7۔ "مصباح المنتھجد": شیخ طوسی نے اس کتاب میں، سال بھر میں پڑھی جانے والی مستحب دعاؤں اور عبادات اور عبادات سے متعلق بعض فقہی احکام جمع کئے ہیں۔
شیخ طوسی کے شاگرد
شیخ طوسی کے شاگرد جو فقہا و مجتہدین و علمائے شیعہ ہیں، تین سو سے زائد افراد پر مشتمل ہیں، شیعہ شاگردوں کے علاوہ کئی سو افراد علمائے اہل سنت نے بھی ان سے علمی استفادہ کیا ہے۔[32]
ان کے بعض شاگرد حسب ذیل ہیں:
1۔ آدم بن یونس بن ابی مہاجر نسفی
2۔ احمد بن حسین خزاعی نیشابوری
3۔ ابوالخیر برکہ بن محمد بن برکہ اسدی
4 ۔ عبدالجبار بن عبداللہ مقرری رازی
5 ۔ ابو عبداللہ حسین بن مظفر ابن علی حمدانی
6 ۔ قاضی ابن برّاج طرابلسی[33]
7 ۔ ابن شہر آشوب مازندرانی
8 ۔ جمال الدین محمد بن ابوالقاسم طبری آملی۔[34]
9 ۔ شیخ طوسی کی سوانح حیات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ملاحظہ ہو مقالہ: [35]" شیخ طوسی" اسلام پیڈیا میں۔
شیخ طوسی پانچ سال تک، یعنی شیخ مفید کی سنہ 413 ھ ق مین وفات ت اس مرجع عالیقدر کے حضور میں علمی فیض حاصل کرتے رہے۔ دینی زعامت اور مذہب شیعہ کی ریاست سید مرتضی کو منتقل ہونے کے بعد شیخ طوسی 23 سال تک، سید مرتضی کے سنہ 436 ھ ق میں رحلت تک ان کے مکتب علمی سے فیضیاب ہوتے رہے اور ان کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے تھے، چنانچہ سید مرتضی دوسرے شاگردوں کی بہ نسبت ان کی طرف زیادہ توجہ دیتے تھے،
سید مرتضی کی وفات کے بعد، شیخ طوسی نے شیعوں کی زعامت کی عظیم ذمہ داری سنبھالی،[2] اور بغداد میں تدریس اور تالیف کے علاوہ اعتقادی اور فقہی شبہات سے متعلق سوالات کا جواب دینے میں مشغول ہوئے۔ یہاں تک کہ سنہ 447 ھ ق میں طغرل بغداد آگیا اور شیعوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ اس حادثہ میں شیخ طوسی کا گھر، کتابخانہ اور درس گاہ بھی جل کر راکھ ہوئے۔
بالآخر سیاسی حالات بدلنے اور رونما ہونے والے حوادث کے پیش نظر شیخ طوسی نے نجف اشرف ہجرت کی۔[3]
شیخ طوسی کا شجرہ نسب اور خاندان:
شیخ طوسی کا خاندان کئی نسلوں تک علماء و فقہا پر مشتمل تھا۔ ان کے باپ کا نام حسن بن علی طوسی تھا۔ وہ خراسان کے شہر طوس کے رہنے والے تھے۔ نجاشی نے شیخ طوسی کے نام اور شجرہ نسب کو حسب ذیل درج کیا ہے:
" محمد بن الحسن بن علی الطوسی، ابو جعفر جلیل فی اصحابنا، ثقہ عین"۔[4]
شیخ طوسی کے مشہورالقاب:
اہل سنت مورخین اور ترجمہ نگاروں نے ان کے بارے میں ان عناوین سے یاد کیا ہے:" فقیہ الشیعه"[5]
اور" شیخ الشیعه و عالمھم"[6]امامیہ کے ہاں ان کا مشہور ترین لقب " شیخ الطائفه" ہے۔[7]
شیخ طوسی کی تعلیم اور تجربے
شیخ طوسی نے اپنی بابرکت زندگی میں کافی رنج و مصیبتیں برداشت کی ہیں اور سخت ترین سیاسی اوراجتماعی حالات میں اپنے زمانہ ک بلند ترین علمی مقام پر فائز ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اس زمانہ میں بغداد شیعہ اور سنی دانشوروں کے درمیان آزاد علمی مباحث اور عقیدتی تبادلہ خیال کا مرکز تھا۔ ان سب میں ممتاز اور بزرگترین شخصیت محمد بن محمد بن نعمان( شیخ مفید) تھے۔
جب شیخ طوسی بغداد میں داخل ہوئے، شیخ مفید کے حضور زانوئے ادب تہ کرکے ان سے علمی فیض حاصل کیا اور مختصر مدت میں استاد کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے استاد کے دوسرے شاگردوں پر برتری حاصل کی۔
علم و دانش کے ذریعہ بلند ترین مقصد تک پہنچنے کے لئے ان کی استعدادی اور انتھک کوششیں اس امر کا سبب بنیں کہ دوسرے لوگوں نے بھی ان کی لیاقت کا اعترا ف کیا اور وہ دو اہم اور حساس عہدوں پر فائزہوئے، ان میں سے ایک شیعوں کی علمی اور دینی زعامت و مرجعیت تھی اور وہ بھی بغداد میں مخالفوں اور بڑے شیعہ و سنی دانشوروں کے درمیان، دوسرا، خلیفہ وقت کی طرف سے علم کلام کی کرسی پر فائز ہونا تھا۔ یہ ایک بلند مقام تھا اور آسانی کے ساتھ کوئی اس پر فائزنہیں ہوسکتا تھا۔ یہ مقام اس زمانہ کے دانشوروں میں سے ممتاز شخص کو ملتا تھا اور شیخ طوسی نے ثابت کیا کہ وہ اس مقام کی لیاقت رکھتے ہیں اور اسے حق بجانب حاصل کیا ہے۔[8]
شیخ طوسی نے کتاب " تہذیب الاحکام"، جو شیعوں کی قابل توجہ اور مشہور کتاب ہے، کو جوانی میں تالیف کیا ہے۔[9] اور یہ بذات خود ان کی جوانی میں اجتہاد کے درجہ پر فائز ہونے کی ایک مستحکم سند ہے۔
بہت سے محققین شیخ طوسی کو، اسلامی ثقافت و تمدن میں تشیّع کے آئین اور لائحہ عمل کو تدوین کرنے والا سمجھتے ہیں۔
علامہ حلّی اس سلسلہ میں کہتے ہیں:
" شیخ طوسی، شیعہ دانشوروں کے پیشوا، رئیس طائفہ امامیہ، علوم اخبار، رجال، فقہ، اصول، کلام اور ادب میں صاحب نظر تھے۔ انھوں نے شیعہ عقائد کو اس کے اصول و فروع میں طبقہ بندی کرکے اس کی اصلاح کی ہے"۔[10]
علم کلام میں شیخ طوسی کے نئے طرز نے عالم اسلام کے مختلف ممالک کے طلبہ کو یہ علم حاصل کرنے کی ہمت افزائی کی اور انھیں دنیا کے دوردراز علاقوں سے اپنی طرف جذب کیا، حتی دوسرے دانشور اور فقہا بھی پیدا شدہ مسائل و مشکلات کو شیخ طوسی کی خدمت میں لے جاتے تھے تاکہ وہ ان مطالب کے صحیح یا غلط ہونے کی تشخیص دیں اور ان سے راہ حل کے بارے میں آگاہ ہو جائیں۔
شیخ، اپنے کتاب خانہ اور قلمی نسخوں کو آتش سوزی میں کھوچکے تھے اس لئے وہ اپنی باقی ماندہ زندگی سے پورا پورا استفادہ کرنے کے لئے بیشتر سنجیدگی کے ساتھ علوم اسلامی کے بارے میں تحقیق و تدریس میں لگ گئے۔ نجف اشرف کے علمی مرکز کے وجود کو شیخ طوسی جیسے استاد کی موجودگی نے اس قدر اہمیت بخشی کہ، صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس وقت اس کی پائیداری اور استحکام مشہود ہے۔[11]
شیخ طوسی کے اساتذہ
فقہ و کلام میں شیخ طوسی کے اہم اور تاثیر گزار اساتذہ میں: شیخ مفید( متوفی: 413 ھ ق) اور سید مرتضی علم الھدی( متوفی: 436ھ ق) قابل ذکر ہیں۔[12]
شیخ طوسی، شیخ مفید کی متعدد تالیفت کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:" ان تمام کتابوں کو بارہا ان سے سنا ہے اور ان میں سے بعض کو ان کے لئے پڑھا ہے اور بعض کو دوسروں نے ان کے لئے پڑھا ہے اور انھوں نے سنا ہے"۔[13]
اسی طرح سید مرتضی کی بہت سی تالیفات کا ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ: ان کی اکثر کتابوں کو ان کے لئے پڑھا گیا ہے اور ان میں سے بعض کو جب ان کے لئے پڑھاجاتا تھا، تو انہوں نے انھیں بار ہا سنا ہے۔[14]
شیخ طوسی کے بعض دوسرے اساتذہ حسب ذیل ہیں:
ابو عبداللہ حسین بن عبداللہ غضائری، ابو عبداللہ احمد بن عبدالواحد البزار، مشہور بہ ابن عبدون، احمد بن موسی، مشہور بہ ابن صلت اہوازی، ابوالحسین علی بن احمد بن محمد بن ابی جید قمی، ابوالقاسم علی بن شبل بن اسد الوکیل، جعفر بن حسین بن حسکہ قمی۔[15]
وفات شیخ طوسی
شیخ طوسی 22 محرم سنہ 460 ھ ق میں نجف اشرف میں وفات پاگئے۔[16] البتہ بعضوں نے ان کی وفات کی تاریخ کو آخر محرم 458[17] یا سنہ 461[18] اعلان کیا ہے۔
شیخ طوسی کی ذاتی خصوصیات
شیخ طوسی کی ذاتی خصوصیات کے بارے میں ہم صرف بعض بزرگوں کے کلام کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
1۔ نجاشی (متوفی 450ھ ق): وہ امامیہ علماء میں سے اور ہمارے زمانہ کے قابل اعتماد اور سرشناس شخصیت ہیں۔ وہ ہمارے استاد ابو عبداللہ مفید کے شاگرد تھے اور کئی کتابوں کے مولف ہیں"۔[19]
2۔ علامہ حلّی ( متوفی 726) :" مذہب امامیہ کے رئیس اور گراں قدر شیخ، قابل اعتماد، مشہور صادق، آگاہ اور حدیث، رجال، فقہ، اصول و فروع کے عالم تھے۔ اس کے علاوہ علم و عمل میں جامع کمالات نفسانی کے مالک تھے۔" [20]
3۔ شیخ عبدالجلیل قزوینی:" ان کا فضل و زھد اظہر من الشمس تھا"۔[21]
خلاصہ یہ کہ، شیخ طوسی، فقہی، اصولی، حدیثی، کلامی، رجالی اور ادبی جیسے مختلف علمی ابعاد کے زاویہ سے بلند ترین مقام پر قرار پائے تھے۔ وہ تمام اسلامی علوم، من جملہ، قرآن، فقہ، اصول، کلام، رجال، حدیث، تفسیر اور ادبیات میں متبحّر اور صاحب نظر تھے۔
شیخ طوسی کے ادبی پہلو کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: باوجودیکہ وہ عرب زبان نہیں تھے، لیکن اپنے سرشار استعداد اور ذوق و شوق کے پیش نظر عربی ادبیات میں ایک بلند مقام حاصل کرچکے تھے جس کا جلوہ اُن کی گراں قیمت تفسیر" تبیان" میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔[22]
حوزہ علمیہ نجف کی تاسیس
شیخ طوسی کی ہجرت سے پہلے نجف اشرف ایک ایسی سرزمین تھی جس میں بعض علوی اور امام علی علیہ السلام کے خاص شیعہ سکونت کرتے تھے۔ لیکن شیخ طوسی کی اس شہر میں ہجرت کے بعد علوم اسلامی کے طلبہ نے نجف اشرف کو امامی شیعوں کی ایک یونیورسٹی اور مرکز میں تبدیل کیا۔ اس کے بعد اس یونیورسٹی میں ہزاروں طلبہ اور شیعہ مفکرین تربیت پاکر معارف اہل بیت (ع) کی ترویج میں فعال ہوئے ہیں، اگرچہ شیخ طوسی سے پہلے بھی نجف میں مرقد امیرالمومنین (ع) کے جوار میں درس و بحث کا سلسلہ چل رہا تھا اور حوزہ علمیہ تشکیل پاچکا تھا۔[23]
حوزہ علمیہ نجف کی تاسیس کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں:
ایک گروہ کا یہ اعتقاد ہے کہ سنہ 448ھ ق میں شیخ طوسی کی بغداد سے نجف اشرف ہجرت کے بعد انھوں نے حوزہ علمیہ کی تاسیس کی ہے۔
کچھ لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ شیخ طوسی کے آنے سے پہلے، نجف اشرف میں امیر المومنین(ع) کے مرقد کے جوار میں درس و بحث کا سلسلہ چل رہا تھا اور حوزہ علمیہ تشکیل پا چکا تھا۔[24]
بہرحال، ایک اور گروہ شیخ طوسی سے پہلے نجف اشرف میں دانشوروں کی رفت و آمد اور علمی کوششون کا اعتراف کرنے کے باوجود اعتقاد رکھتے ہیں کہ نجف اشرف نے باقاعدہ طور پر حوزہ علمیہ کی شکل شیخ طوسی کی آمد کے بعد اختیار کی ہے۔[25]
شیخ طوسی کے نجف اشرف پہنچنے کا زمانہ، طغرل بیک سلجوقی کے بغداد میں داخل ہونے اور شیخ کے گھر اور کتاب خانہ کو نذرآتش کرنے کے بعد تھا۔[26] کچھ مدت کے بعد شیخ نے اس شہر میں اپنی علمی فعالیتوں کو شروع کیا اور نجف اشرف کا عظیم حوزہ علمیہ ان کی کوششوں کے نتیجہ میں وجود میں آیا ہے۔ شیخ طوسی نے اس زمانہ میں نجف کی نامنظم و ناگفتہ بہ حالت کو نظم و انتظام بخشا اور اس کے بعد شیعہ علماء کی رفت و آمد بھی شروع ہوئی اور اس طرح شیخ نے ایک خاص نظم و انتظام کے تحت درس و بحث کا سلسلہ شروع کیا۔
شیخ طوسی کی تالیفات
شیخ طوسی نے دینی علوم کے سلسلہ میں مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں تالیف و تصنیف کی ہیں۔
قزوینی رازی ان کی تالیفات، مختلف علمی موضوعات پر دوسو جلد کتابیں بتاتے ہیں۔[27]
اس کے علاوہ شیخ طوسی کی تالیفات کی ایک فہرست کو خود ان کی " الفھرست"[28] میں دیکھا جاسکتا ہے جو نجاشی[29] کی " فھرست" اور ابن شہر آشوب[30] کی" معالم العلماء" میں درج کی گئی ہے۔ یہاں پر ہم ان کی بعض مشہور کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1۔ " التبیان فی تفسیر القران"[31]
2۔ " تھذیب الاحکام"۔ یہ کتاب، شیعوں کی ایک معتبر ترین حدیث کی کتاب ہے اور کتب اربعہ میں تیسری کتاب شمار ہوتی ہے۔ شیخ طوسی نے یہ کتاب اپنے استاد شیخ مفید کی کتاب" المقنعه" کی وضاحت اور شرح کے عنوان سے تالیف کی ہے۔
3۔" الاستبصار فیما اختلف من الاخبار" یعنی اہل بیت(ع) سے روایت کی گئی اختلافی روایتوں کا مجموعہ۔ شیخ طوسی نے اس کتاب میں فقہ کے گونا گون مباحث کے بارے میں نقل کی گئی تمام روایتوں اور ان کے بر خلاف نقل کی گئی روایتوں کو جمع کیا ہے۔
4۔ " الامالی": یہ کتاب ان روایتوں پر مشتمل ہے، جنھیں شیخ طوسی نجف میں اپنے منظم درس کے جلسات میں اپنے شاگردوں کے لئے املاء کرتے تھے۔
5۔" النھایه فی مجرد الفقہ والفتاوی"۔ یہ کتاب قدماء کی معتبرترین فقہی کتاب اور شیخ طوسی کی مشہور ترین تالیف ہے، یہ کتاب طہارت سے دیات تک فقہ کے فتاوی پر مشتمل ایک مکمل دورہ ہے۔
6۔ " المبسوط"۔ اس کتاب کا فقہی طرز، فقہ استدلال مقارنہ پر مشتمل ہے، کیونکہ مولف نے پوری کتاب میں اہل سنت کے نظریات کی تحقیق کی ہے اور ان کی فقہ شیعہ سے تطبیق کی ہے۔
7۔ "مصباح المنتھجد": شیخ طوسی نے اس کتاب میں، سال بھر میں پڑھی جانے والی مستحب دعاؤں اور عبادات اور عبادات سے متعلق بعض فقہی احکام جمع کئے ہیں۔
شیخ طوسی کے شاگرد
شیخ طوسی کے شاگرد جو فقہا و مجتہدین و علمائے شیعہ ہیں، تین سو سے زائد افراد پر مشتمل ہیں، شیعہ شاگردوں کے علاوہ کئی سو افراد علمائے اہل سنت نے بھی ان سے علمی استفادہ کیا ہے۔[32]
ان کے بعض شاگرد حسب ذیل ہیں:
1۔ آدم بن یونس بن ابی مہاجر نسفی
2۔ احمد بن حسین خزاعی نیشابوری
3۔ ابوالخیر برکہ بن محمد بن برکہ اسدی
4 ۔ عبدالجبار بن عبداللہ مقرری رازی
5 ۔ ابو عبداللہ حسین بن مظفر ابن علی حمدانی
6 ۔ قاضی ابن برّاج طرابلسی[33]
7 ۔ ابن شہر آشوب مازندرانی
8 ۔ جمال الدین محمد بن ابوالقاسم طبری آملی۔[34]
9 ۔ شیخ طوسی کی سوانح حیات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ملاحظہ ہو مقالہ: [35]" شیخ طوسی" اسلام پیڈیا میں۔
[1]۔ سبحانی، جعفر، موسوعه طبقات الفقهاء، ج 5، ص 279، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1418ق؛ حسینی جلالی، سید محمد حسین، فهرس التراث، ج 1، ص 525، قم، انتشارات دلیل ما، 1422ق؛ زرکلی، خیر الدین، الاعلام، ج 6، ص 84، بیروت، دار العلم للملایین، طبع هشتم، 1989م.
[2]۔ موسوعه طبقات الفقهاء، ج 5، ص 280.
[3] ۔ امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعه، ج 9، ص 159 – 160، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1406ق؛ موسوعه طبقات الفقهاء، ج 5، ص 282.
[4] ۔ نجاشی، احمد بن علی، فهرست اسماء مصنفی الشیعه (رجال نجاشی)، ص 403، قم، دفتر نشر اسلامی، طبع ششم، 1365ش.
[5] ۔ ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج 12، ص 97، بیروت، دار الفکر، 1407ق.
[6] ۔ ذهبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، ج 30، ص 490، بیروت، دار الکتاب العربى، طبع دوم، 1413ق.
[7]۔ اعیان الشیعه، ج 9، ص 159؛ موسوعه طبقات الفقهاء، ج 5، ص 279 – 280؛ فهرس التراث، ج 1، ص 525.
[8]۔ ملاحظہ ھو: دوانی، علی، سیری در زندگی شیخ طوسی، (هزاره شیخ طوسی؛ مقالهها و خطابههایی به مناسبت هزارمین سال ولادت شیخ طوسی)، ص 49 – 60، تهران، مؤسسه انتشارات امیرکبیر، 1386ش.
[9] ۔ آقا بزرگ تهرانی، محمد محسن، الذریعه الی تصانیف الشیعه، ج 4، ص 504، قم، تهران، اسماعیلیان، کتابخانه اسلامیه، 1408ق.
[10] ۔ علامه حلی، حسن بن یوسف، خلاصه الاقوال فی معرفه الرجال، ص 148، نجف، دار الذخائر، طبع دوم، 1411ق.
[11] ۔ صدر حاج سید جوادی، احمد، دایره المعارف تشیع، ج 10، ص 169 – 177.
[12]۔ موسوعه طبقات الفقهاء، ج 5، ص 280.
[13]۔ شیخ طوسی، محمد بن حسن، فهرست کتب الشیعه و اصولهم و اسماء المصنّفین و اصحاب الاصول، مقدمه، ص 68، قم، مکتبه المحقق الطباطبائی، طبع اول، 1420ق.
[14]۔ ضاً، ص 290.
[15]۔ موسوعه طبقات الفقهاء، ج 5، ص 280 – 281.
[16] ۔ ذهبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج 18، ص 335، بیروت، مؤسسه الرساله، طبع سوم، 1405ق؛ اعیان الشیعه، ج 9، ص 166.
[17] ۔ ابن شهر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، معالم العلماء، ص 114، نجف اشرف، منشورات المطبعه الحیدریه، 1380ق.
[18] ۔ بہ نقل از: عسقلانی، ابنحجر، لسان المیزان، ج 5، ص 135، بیروت، مؤسسه الاعلمی للمطبوعات، طبع دوم، 1390ق.
[19] ۔ رجال النجاشی، ص 403.
[20] ۔ خلاصه الاقوال فی معرفه الرجال، ص 148.
[21] ۔ قزوینی رازی، عبدالجلیل، نقض، ص 40، تهران، انتشارات انجمن آثار ملى، 1358ش.
[22] ۔ ملاحظہ ھو: : «شیوه تفسیری التبیان فی تفسیر القرآن»، سؤال 55408.
[23] ۔ بحرالعلوم، محمد، الدراسه و تاریخها فی النجف، ج 1، ص 11، بیروت، مؤسسه الاعلمی للمطبوعات 1407ق؛ شمسالدین، محمدرضا، بهجه الراغبین، ج 1، ص 67 – 68، بیروت، 1424ق.
[24] ۔ ملاحظہ ھو: غروی، سید محمد، الحوزه العلمیه فی النجف الاشرف، ج 1، ص 19 ـ 30، بیروت، دارالاضواء، طبع اول، 1414ق.
[25] ۔ جواد بغدادی، مصطفی، نظرات فی الذریعه الی تصانیف الشیعه، مجله البیان، ج 1، ص 133، سال اول، شماره 5، 1365ق.
[26] ۔ الذریعه الى تصانیف الشیعه، ج 2، ص 134؛ اعیان الشیعه، ج 3، ص 196.
۔[27].۔ نقض، ص 210.
[28]۔ فهرست کتب الشیعه و اصولهم، ج 1، ص 447 - 451.
[29] ۔ ۔ فهرست اسماء مصنّفی الشیعه، ص 403
[30] ۔ معالم العلماء، ص 114 – 115.
[31] ۔ ملاحظہ ھو: «شیوه تفسیری التبیان فی تفسیر القرآن»، سؤال 55408.
[32] ۔ محققحلّى، جعفر بن حسن، نکت النهایه(النهایه و نکتها)، مقدمه آقابزرگ تهرانی، محمد محسن، ج 1، ص 45، قم، دفتر انتشارات اسلامى، طبع اول، 1412ق.
[33] ۔ موسوعه طبقات الفقهاء، ج 5، ص 281.
[34] ۔ ملاحظہ ھو: نکت النھایه (النھایه ونکتھا)، ج1،ص 46۔ 48۔
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے