Please Wait
13904
تمام قمری مهینوں کے دن آپس میں برابر هیں اور هر مهینه29 دن12 گهنٹے،44منٹ اور 3سیکنڈ کا یا ٢٩٠٥٣٠٥٩٠٢٨ دن کا هوتا هے –اسی طرح هرقمری سال کے دن آپس میں برابر اور باره مهینے یا354.3670834 دن هیں ، لیکن چونکه منجّمن ، هر مهینه کے دنوں کے اعداد صحیح (غیر کسر) بیان کر نے پر مجبور هیں اور تاریخ اور واقعات کو درج کر نے میں مهینے کے تیسویں دن کو دوحصوں میں تقسیم کر کے ایک حصه کو پهلے مهینه میں اور دوسرے حصه کو بعد والے مهینه میں شمار نهیں کرسکتے هیں- اسی وجه سے علم نجوم کے سائنسدان دوقسم کے قمری مهینوں (حسابی مهینه اور هلالی مهینه ) کے قائل هوئے هیں –لیکن چونکه مهینوں اور سال کے دنوں کی تعداد صحیح عدد پر مشتمل نهیں هے ، اس لئے فقهی لحاظ سے ، حسابی مهینه قابل اعتبار نهیں هے اور فقها صرف روئت هلال کے مهینه کو قابل اعتبار جانتے هیں اور چونکه تمام جگهوں اور اوقات پر یکساں روئیت هلال ممکن نهیں هے ، اس لئے قدرتی بات هے که روئت هلال اور عدم روئت هلال میں پهلے سے اختلاف رونما هوتا رها هے – واضح هے که مهینے میں اس قسم کے اختلافات بعد میں خودبخود حل هوتے هیں اور بعض مواقع پر حاکم شرع کے حکم سے نئے مهینے کے آغاز کی مشکل حل هوتی هے-
تمام قمری مهینوں کے دن آپس میں برابر اور هر مهینه پورے 29دن ، 12 گهنٹے، 44منٹ اور 3سیکنڈ کا یا 29.3059028دن کا هوتا هے –اسی طرح هر قمری سال کے مهینے بهی آپس میں برابر اور پورے 12 مهینے یا 354.3670834دن کے هوتے هیں-لیکن حساب میں آسانی کے لئے هر قمری سال کو 354دن مد نظر رکها جاتا هے ، اس لحاظ سے ایک سال میں چھـ مهینے تیس دن کے اور چهـ مهینے انتیس دن کے هوتے هیں –
سال کی کمی کی تلافی کر نے کے لئے ، هر تیسرے سال میں ایک دن اضافه کیا جاتا هے ،یعنی تیسرا سال 355 دن کا هوتا هے ، کیونکه تین سال کے دوران کمی کی مقدار، 3x0.3670834یعنی 1.101دن هوتی هے-
اس محاسبه کا اهم نتیجه، جس سے غفلت نهیں کی جانی چاهئے، وه" ایک چهوڑ کر" کا قاعده هے، قمری سال کے مهینے ایک چهوڑ کر ، تیس اور انتیس دن کے هوتے هیں –
اس کے باوجود کبهی مهینه کے آغاز کے سلسله میں کچھـ غلطیاں یا اختلافات وجود میں آتے هیں اور ان غلطیوں اور اختلافات کی ایک وجه "ایک چهوڑ کر" کے قاعده پر عمل نه کیا جاناهے-
چونکه منجمیّن مجبور هیں ،هر مهینے کے دنوں کے اعداد کو صحیح اعداد (غیر کسر) میں بیان کریں اور تاریخ و حوادث کو درج کر نے میں مهینے کے تیسویں دن کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کے آدهے حصه کو گزشته مهینے میں اور آدهے حصه کو اگلے مهینه میں حساب نهیں کرسکتے هیں، اس لئے اس کے علاوه کوئی چاره نهیں هے که قمری مهینے کم از کم پورے انتیس دن کے اور زیاده سے زیاده پورے تیس دن کے هوں –اس لحاظ سے علم نجوم کے دانشور دوقسم کے قمری مهینوں کے قائل هوئے هیں :
١- حسابی مهینه
٢- روئت هلال کا مهینه
حسابی مهینه کو نظم و انتظام بخشنے کے لئے ،منجمیّن، نے کچهـ گوشوارے مرتب کئے هیں که جو نجومی قاعده کے مطابق مهینه کی حرکت ، مهینوں اور سالوں کی مقدار اور ان کے آغاز کو معین کرنے پر مشتمل هیں ، اور ان کو، چاند ، سورج اور ستاروں کے" قاعده حرکت وسطی" کے مطابق منظم کیا گیا هے تاکه ایک کلی نظم وانتظام کے مطابق هو، نه چاند اور سورج کی مدتی حرکت کے مطابق –چاند اور سورج کی حرکت وسطی(در میانی حرکت) کے مطابق کها گیا هے: چاند کے ایک چکر پورا کرنے کی مدت چاند اور سورج کے (جمع هونے کے ایک وقت سے دوسرے وقت تک )29 دن 12گهنٹے اور 44 منٹ هے، اور منجمیّن خود اس بات کا اعتراف کرتے هیں که چاند اور سورج کے آپس میں جمع هو نے کے وقت ، هلال کو آنکهوں سے دیکها نهیں جاسکتا هے اور اس گوشواره اور نجومی محاسبه کا نتیجه یه نکلتا هے که:
چونکه ایک ماه کی مدت میں ،29دن سے 12 گهنٹے اور 44 منٹ زیاده هے اور یه مقدار مسلسل دو مهینوں میں ایک دن رات سے زیاده هے، اس لئے اسے پورا ایک دن حساب کرتے هیں –اور ایک مهینه کو پورا(تیس دن) حساب کرتے هیں اور ایک مهینے کو ناقص (انتیس دن) حساب کرتے هیں اور ایک مهینے کو ناقص (انتیس دن) حساب کرتے هیں تاکه گزشته مهینه کی کمی کی تلافی کی جائے –یعنی حقیقت میں دوسرے مهینے کے باره گهنٹوں کو گزشته مهینے کے باره گهنٹوں میں اضافه کرتے هیں اور گزشته مهینے کو ایک پورا دن دے کر تیس دن حساب کرتے هیں- اور چونکه قمری سال محرم سے شروع هو تا هے، اس لئے محرم تیس دن کا هوگا اور ذی الحجه انتیس دن کا-
لیکن روئت هلال کے مهینه کا مراد، وه مهینه هے جو آنکهٶن سے هلال دیکهنے پر ثابت هوتا هے اسلامی احکام کا دار ومدار اسی مهینه پر هے اور محترم فقها ، هر هلالی مهینه کی مدت، روئت هلال سے دوسرے مهینه کی روئت تک جانتے هیں نه مذکوره گوشواره کے حساب سے که ایک مهینه تیس دنوں کا اوردوسرا مهینه انتیس دنوں کا هوتا هے-
اسی وجه سے کها گیا هے که روئت هلال کے مهینه میں ایک خفیف نامنظم حرکت کی وجه سے ممکن هے مسلسل کئی مهینے (زیاده سے زیاده چار مهینے )تیس دن کے هوں اور مسلسل تین مهینے انتیس دن کے هوں-
شیعه فقها دو وجوهات کی بناپر منجمیّن کے حسابی مهینوں کو قابل اعتیار نهیں سمجهتے هیں:
اولاً : اس لحاظ سے که شرع میں نجومی گوشواره کے حجت هونے کی کوئی دلیل موجود نهیں هے ، بلکه شرعی طورپر اس کے برخلاف دلیل موجود هے- مثال کے طور پر یه، روایت جس میں فرمایا گیا هے: " صم للرٶیۃ وافطر للروئۃ [1]" { جب(رمضان کا) هلال دیکهو گے تو روزه رکهنا اور جب (ماه شوال کا) هلال دیکهو گے تو افطار کرنا( یعنی روزه توڑ نا)}
ثانیاً : منجمیّن کے لیپ سالوں میں ریاضی کے محاسبه میں ایک مشکل پیش آتی هے، کیونکه منجمیّن کے حساب کے مطابق هر تیس برسوں میں گیاره سال لیپ کے سال حساب کئے جاتے هیں اور اس طرح مجبور هیں که ماه ذی الحجه کو، جو، ان کے محاسبه کے مطابق ٢٩ دن کا هے ، تیس دن حساب کریں[2]-
اس بناپر، چونکه ماه وسال کے دنوں کی تعداد ایک صحیح عدد نهیں هے اس لئے فقهی نظر سے ، حسابی مهینه قابل اعتبار نهیں هے اور اسی وجه سے فقها نے روئت هلال کے مهینه کو قابل اعتبار جانا هے- اور چونکه روئت کا ممکن هونا هرجگه اور هر وقت یکساں نهیں هے، قدرتی بات هے که روئت هلال اورعدم روئت هلال میں اختلاف نظر پایا جائے- لیکن ایسے مواقع پر بعد والے مهینه میں یه اختلافات خود بخود دور هوجاتے هیں اور اس کے علاوه بعض مواقع پر نئے مهینه کے آغاز کے سلسله میں حاکم شرع کے حکم سے اختلاف نظر دور هوتے هیں-