Please Wait
11116
لیکن میرا سوال یه هے که کیا قرآن کی آیت صرف محمدصلی الله علیه و آله پر صلوات بھیجنے کو نهیں کهتی؟ یه کیسے کها جاسکتا هے که صلوات میں آل محمد کا تذکره واجب هے؟ کیا یه دین میں ایک طرح کی بدعت نهیں هے؟ اذان میں [اشهد ان علیا ولی الله] کے سلسله میں فرماتے هیں که استحباب کی نیت سے هے تو ثواب هے اور اگر کوئی اسے اذان کے جزو هونے کی نیت سے کهے تو دین میں بدعت کے عنوان سے حرام هے۔ تو کیا آل محمد پر صلوات کو استحباب کے عنوان سے کها جاسکتا هے کیونکه آیت میں صراحت پائی جاتی هے که الله اور ملائکه نبی پر صلوات بھیجتے هیں اے ایمان لانے والو تم بھی ان پر صلوات بھیجو۔ اب نه تو لفظ [نبی] میں اهلبیت کو شامل کیا جاسکتا هے اور نه هی [علیه] کی ضمیر میں وه شامل هوسکتے هیں۔ قرآن میں دوسری جگهوں پر اولی الامر، امام اور پیشوا کی عنوان سے اهل بیت کی تفسیر کی جاسکتی هے لیکن لفظ نبی کا اطلاق حضرت محمد صلّی الله علیه وآله کے علاوه کسی اور پر نهیں هوسکتا۔ تو کیا قرآن کی صراحت کو مد نظر رﮐﮭ کر یه کها سکتا هے که آل محمد پر صلوات بھیجنا صلوات کا جزو نهیں هے بلکه استحباب کے عنوان سے کهنا چاهئے لهذا صلوات میں آل محمد کو شامل کرنا واجب نهیں هے۔
براه کرم کلامی اور فلسفی جواب عنایت کریں اور آل محمد کو شامل کرنے والی شیعه سنی روایات کو ذکر نه فرمائیں کیونکه ان سب کو میں جانتا هوں۔
پیغمبر اکرم صلّی الله علیه وآله پر صلوات کے ساﭠﮭ آل محمد پر صلوات بھیجنا نه صرف یه که بدعت نهیں هے بلکه قرآن، روایات اور عقل و عرفان کے موافق هے۔ چونکه:
۱۔ بدعت کا مطلب یه هے که ایک ایسی چیز دین کا جز بنادی جائے جو دین میں نه هو۔ همارے نزدیک آل محمد پر صلوات بھیجنا بدعت نهیں هے کیونکه رسول اور آل رسول کی روایات میں یه مسئله آیا هے۔
۲۔ الله نے اپنے بندوں پر ﮐﭼﮭ فرائض عائد کئے هیں اور اجمالی اور کلی طور سے ان کے وجوب کو قرآن میں ذکر کیا هے یا ان کی ﮐﭼﮭ خصوصیات بیان کی هیں، اور اس کی تمام خصوصیات اور قیود و شروط کو قرآن میں ذکر نهیں فرمایا هے؛ تمام جزئیات اور اجزاء کو سمجھنے کے لئے قرآن کے واقعی مخاطبین اور مفسرین یعنی پیغمبر اکرم اور ائمه اهل بیت صلّی الله علیه وآله کی خدمت میں جانے کی ضروت هے۔ جنھیں الله نے قرآن کے مفسر اور مبیّن قرار دیا هے۔
لهذا جب رسول صلّی الله علیه وآله نے فرمادیا که میرے ساﭠﮭ میری آل کا تذکره بھی صلوات میں کرو تو اس کا مطلب یه هوا که یه بات قرآن هی سے ماخوذ هے۔
۳۔ قرآن کے ظاهری معنی بھی هیں اور اس کے علاوه اس کے باطنی گهرے معانی بھی هیں جس کے بارے میں رسول صلّی الله علیه وآله اور آل رسول علیهم السلام بتاسکتے هیں اور لفظ [نبی] اگرچه ظاهرا آل محمد کو شامل نهیں هوتا لیکن باطنی معنی کے لحاظ شامل هوتا هے۔
۴۔ قرآن کی آیتیں پیغمبر اور آپ کے اهلبیت کو ایک حقیقت کے طور پر دیکھتی هیں۔ اور عرف و عقلاء بھی همفکر اور هم عقیده افراد کو ایک نگاه سے دیکھتے هیں۔ اور بهت سی روایتیں رسول اور آل رسول کو ایک نور کے طور پر بیان کرتی هیں۔ اسی وجه سے عرفان میں اس نور واحد یعنی رسول اور آل رسول کو [حقیقت محمدیه] اور [صادر اول] کها جاتا هے اس لحاظ سے یه کیسے هوسکتا هے که کوئی رسول صلّی الله علیه وآله پر صلوات بھیجے لیکن آل رسول علیهم السلام پر نه بھیجے، دوسرے لفظوں میں اهل بیت علیهم السلام پر صلوات در اصل رسول صلّی الله علیه وآله پر صلوات هی هے۔
آخری بات یه هے که رسول صلّی الله علیه وآله پر صلوات هر جگه واجب نهیں هے بلکه خاص جگهوں پر مثلا نماز کے تشهد میں واجب هے البته جهاں رسول پر صلوات واجب هے وهاں آل پر بھی واجب هے۔ اور جهاں رسول پر مستحب هے وهاں آل پر بھی مستحب هے اور [آل محمد] کا ذکر نه کرنا صلوات کے نقص کا سبب هوگا۔
جواب کے واضح هونے کے لئے ﮐﭼﮭ نکات کو بیان کرنا ضروری هے:
۱۔ بدعت؛ یعنی اس چیز کو دین میں سمجھیں جو دین میں نهیں هے۔ یه بات اپنی جگه پر ثابت کی جاچکی هے که رسول صلّی الله علیه وآله اور آپ کے اهلبیت علیهم السلام کے اعمال و اقوال کو دین میں شمار کیا جاتا هے۔ لهذا آپ نے جو یه کها هے که لفظ آل محمد چونکه قرآن میں نهیں هے اس لئے بدعت هے، یه صحیح نهیں هے چونکه اگر قرآن میں نه بھی آیا هو پھر بھی روایات میں آنا هی دین میں شمار هونے کے لئے کافی هے اور بدعت شمار نهیں هوگا۔ اور جو فقهاء کهتے هیں که شهادت ولایت (یعنی اشهد ان علیا ولی الله) کو اذان میں جزئیت کی نیت سے کهنا بدعت هے ان کا مقصد بھی یه هے که مذکوره شهادت کے جزو اذان هونے پر آیات و روایات میں کوئی دلیل نهیں هے۔
۲۔ جن فرائض کو الله نے انسان کے کاندھوں پر رکھا هے مثلا طهارت، نماز، روزه، حج، جهاد، خمس، زکات وغیره یه سب کے سب قرآن میں آئے هیں لیکن تمام جزئیات، شرائط، لوازمات اور موانع کے ساﭠﮭ نهیں بلکه صرف ان کا وجوب اور اس کے بعض اجزاء و شرائط کو کلی اور اجمالی انداز میں بیان کردیا گیا هے مثلا نماز کا وجوب قرآن میں آیا هے اور اس کے بعض اجزا و شرائط مثلا طهارت، رکوع و سجود کی طرف اشاره بھی کیا گیا هے لیکن ذکر رکوع و سجود، قرائت، تسبیحات اربعه، قیام متصل برکوع، غسل، وضو اور تیمم کا طریقه وغیره مکمل طور سے اور تمام خصوصیات کے ساﭠﮭ کسی بھی آیت میں بیان نهیں هوا هے۔
مسلمانوں کا طریقه شروع سے هی یه رها که ان جزئیات کے سلسله میں معلومات کے لئے رسول اکرم صلّی الله علیه وآله کی خدمت میں حاضر هوتے تھے اور فرائض کی جزئیات اور ان کی ادائگی کا طریقه معلوم کرتے تھے اور آپ کے فرمان کے مطابق عمل کرتے تھے۔
صلوات کے سلسله میں بھی ایسا هی تھا که آیه [إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَى النَّبِیِّ یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلیما][1] کے نازل هونے بعد مسلمان رسول اکرم صلّی الله علیه وآله کی خدمت میں آئے اور آپ سے [نبی پر صلوات] بھیجنے کا طریقه پوچھنے لگے اور شیعه سنی کی متواتر روایات کے مطابق آپ نے فرمایا که اس طرح کهیں: [اللهم صل علی محمد و آل محمد کما صیلت علی ابراهیم و…][2] اور اس طرح صلوات کے بارے میں اپنی ذمه داری کی طرف مسلمان متوجه هوگئے۔[3]
دوسرے لفظوں میں جب الله نے اپنے رسول صلّی الله علیه وآله کو قرآن کا مفسر اور مبیّن قرار دے دیا هے[4] تو آپ کا بیان اور تفسیر بھی الله کا بیان اور تفسیر سمجھی جائے گی۔ اور رسول اکرم صلّی الله علیه وآله نے آیه [إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَى النَّبِیِّ یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلیما][5] کی تفسیر [اللهم صل علی محمد و آل محمد کما صیلت علی ابراهیم و…] کے ذریعه کی هے لهذا نتیجه یه هوا که آل محمد پر صلوات خود قرآن سے سمجھی جاسکتی هے۔
۳۔ ظاهری معانی کے علاوه قرآن کے عمیق باطنی معانی بھی هیں جس بارے میں رسول صلّی الله علیه وآله اور آل رسول علیهم السلام بتاسکتے هیں۔[6] اس لئے کها جاسکتا هے جو روایات کهتی هیں که صلوات میں آل محمد کا بھی ذکر هونا چاهئے وه قرآن کے باطنی معانی بتاتی هوں؛ اگرچه لفظ نبی کے ظاهری معنی میں آل محمد شامل نه هوتے هوں لیکن باطنی معنی کے لحاظ سے شامل هوتے هیں۔
۴۔ آیات قرآنی سے یه سمجھا جاسکتا هے رسول صلّی الله علیه وآله اور آل رسول علیهم السلام کو الله حقیقت واحد کے عنوان سے لحاظ میں دیکھتا هے۔ مثلا آیه تطهیر کو ملاحظه فرمائیں [إِنَّما یُریدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهیرا][7]، اس میں الله نے پیغمبر صلّی الله علیه وآله اور آپ کے اهلبیت علیهم السلام کو ایک حقیقت کے عنوان سے پیش کیا هے۔
آیه مودت [قُلْ لا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبى][8] میں الله پیغمبر صلّی الله علیه وآله کے اجر رسالت کو اهلبیت علیهم السلام کی مودت قرار دیتا هے اس سے پته چلتا هے که الله کی نظر میں یه ایک دوسرے سے الگ نهیں هیں۔ یا آیه مباهله [فَمَنْ حَاجَّکَ فیهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکاذِبین][9]میں جیسا که آپ ملاحظه فرماتے هیں که اس میں حضرت علی علیه السلام کو نفس پیغمبر قرار دیا گیا هے اور دعا کی قبولیت کے لئے اس مجموعه کی حاضری کو ضروری سمجھا گیا هے۔
۵۔ اچھی خاصی روایات یه بیان کرتی هیں که پیغمبر صلّی الله علیه وآله اور آپ کے اهل بیت علیهم السلام نور واحد هیں۔
نمونه کے طور پر اس روایت پر توجه کریں: رسول الله صلّی الله علیه وآله نے فرمایا: میں الله کے نور سے خلق هوا اور میرے اهلبیت میرے نور سے خلق هوئے۔[10]
۶۔ عرفاء بھی پیغمبر اکرم صلّی الله علیه وآله اور ان کے اهلبیت علیهم السلام کی ذوات مقدسه کے لئے [حقیقت محمدیه] یا [صادر اول] کی تعبیر استعمال کرتے هیں جو که ایک حقیقت هے اور جس کے تجیلات و ظهورات مختلف هیں۔
۷۔ عرف و عقلاء کی نظر میں وه لوگ جو ایک فکر اور عقیدے کے هیں اور جن میں فکری و عملی تضاد و تقابل نهیں هے وه حقیقت واحده سمجھے جاتے هیں یعنی ان کو ایک نگاه سے دیکھا جاتا هے۔
نتیجه یه هوا که رسول صلّی الله علیه وآله پر صلوات بھیجنے میں اهلبیت علیهم السلام کو شامل کرنا نه صرف یه که بدعت نهیں هے بلکه قرآن، روایات اور عرف و عقلاء کے موافق هے اور اهل بیت علیهم السلام کی صلوات در حقیقت وهی پیغمبر صلّی الله علیه وآله کی صلوات هے، اور دونوں ایک حقیقت تک پهنچاتے هیں۔
آخری بات یه هے که پیغمبر پر صلوات مطلقا واجب نهیں هے بلکه صرف خاص موقعوں پر مثلا نماز کے تشهد میں واجب هے۔[11] البته جهاں صوالت واجب هے وهاں آل محمد علیهم السلام کا ذکر بھی ضروری هے؛ اور جهاں مستحب هے وهاں آل محمد کا ذکر بھی مستحب هے اور آل محمد علیهم السلام کا ذکر نه کرنا صلوات کے ناقص هونے کا سبب هوگا۔
[1] احزاب، ۵۶۔
[2] تفسیر نمونه، ج۱۷ ،ص ۴۱۹۔
[3] مزید معلومات کے لئے رجوع فرمائیں: الصلاۃ علی محمد و آل محمد ، سوال نمبر ۴۲۸
[4] حشر، ۷۔
[5] احزاب، ۵۶۔
[6] بحار الا نوار، ج ۸۹، ص۹۰۔۹۵۔
[7] احزاب، ۳۳۔
[8] شوری، ۲۳۔
[9] آل عمران، ۶۱۔
[10] بحار الانوار ،ج ۱۵ ،ص ۲۰ ۔
[11] تحریر الوسیلۃ ، ج۱ ،ص ۱۴۳، القول فی التشھد، مسئله ۱۔