Please Wait
8367
فقیر کی لغوی تعریف میں آیا ہے کہ: وہ شخص جو کمرتوڑ غربت سے دوچار ہو۔ مسکین کے معنی بھی فقیر ہیں بغیر اس کے کہ حقیقت میں اس کے حالات فقیر سے بدتر ہوں[1]۔
شرعی اصطلاح میں بھی اس شخص کو فقیر کہا جاتا ہے، جس کے پاس ایک سال کے اخراجات نہ ہوں۔ جس کے پاس کوئی زمین یا سرمایہ ہو اور اس سے اپنے سال بھر کے اخراجات پورے کر سکے، وہ فقیر شمار نہیں ہوگا[2]۔
قرآن مجید، زکوٰۃ ادا کرنے کے سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے: "صدقات و خیرات بس فقراء، مساکین اور ان کے کام کرنے والے اور جن کی تالیف قلب کی جاتی ہے اور غلاموں کی آزادی میں اور قرضداروں کے لیے اور راہ خدا میں غربت زدہ مسافروں کے لیے ہیں یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ خوب جاننے والا اور حکمت والا ہے[3]۔"
زکوٰۃ کے مصرف کے بارے میں مراجع محترم تقلید فرماتے ہیں:
انسان ، زکوٰۃ آٹھ مواقع پر صرف کر سکتا ہے:
۱۔ فقیر ایسا شخص ہے جس کے پاس اپنے اہل و عیال کے لیے سال بھر کا خرچہ موجود نہ ہو، جس کے پاس کوئی صنعت ، ملکیت یا سرمایہ ہو جس سے وہ سال بھر کا خرچہ پورا کر سکتا ہے، وہ فقیر نہیں ہے۔
۲۔ مسکین وہ شخص ہے جو فقیر سے بدتر حالات سے دوچار ہو۔
۳۔ امام{ع} یا نائب امام کی طرف سے زکوٰۃ جمع کرنے اور اس کا حساب و کتاب کرنے پر مامور شخص جو زکوٰۃ کو امام{ع} یا نائب امام تک پہنچاتا ہو۔
۴۔ وہ کافر جن کو زکوٰۃ دینے سے وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں یا جنگ میں مسلمانوں کی مدد کرنے والے کفار۔
۵۔ غلاموں کی خریدارای کر کے ان کو آزاد کرنے پر۔
۶۔ وہ قرضدار ، جو اپنے قرض کو ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔
۷۔ سبیل اللہ، یعنی اس کام پر خرچ کرنا جو عمومی منفعت رکھتا ہو جیسے مسجد اور پل کی تعمیر اور راستہ بنانا جس کا منافع عام لوگوں کو پہنچتا ہے اور اس کے علاوہ بہر صورت جو بھی اسلام کے فائدہ میں ہو۔
۸۔ ابن السبیل، یعنی وہ مسافر جو سفر میں مالی مشکلات سے دوچار ہو[4]۔
اس بنا پر اسلام نے کچھ لوگوں کو زکوٰۃ لینے کے لیے متعارف کیا ہے، ان میں فقیر و مسکین ہیں۔
زکوٰۃ ادا کرنے کا ایک اور مصداق، وہ غیر مسلم ہے، جو زکوٰۃ دینے کی وجہ سے اسلام کی طرف رجحان پیدا کرے۔
فقہا نے بھی غیر مسلم کو زکوٰۃ دینے کے بارے میں فرمایا ہے کہ: "غیر مسلم کو زکوٰۃ دینا، اس صورت میں جائز ہے کہ وہ اسلام کی طرف رجحان پیدا کرے یا ممکنہ جگہوں میں مسلمانوں کی حمایت کرے۔[5]"
[1]محمود عبد الرحمان ،معجم المصطلحات و الألفاظ الفقهية، ج3، ص،50-51.
[2]حائری یزدی ، سید محمد کاظم ،العروة الوثقى (المحشى)، ج4، ص، 99.
[3]توبه، 60.
[4]توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج2، ص: 141
[5]اراکی، محمد علی، المسائل الواضحة، ج1، ص ،334، مکتب الاعلام الاسلامی،قم، 1414 ھ .