Please Wait
22811
" قسمت" اور "مقدر" ان الفاظ میں سے ھیں جو لوگوں کے درمیان رائج ھیں اس کی اصلی جڑیں زیاده تر ادب اور اشعار میں ھیں۔
۱۔ کسی چیز کا سبب (علت) کے بغیر متحقق ھونا:
یھ مطلب ، فلسفیانھ نقطھ نظر سے باطل ھے کیونکھ یھ مطلب اپنی جگھ پرثابت ھوچکا ھے کھ ھر چیز کی علت اور سبب ھے۔ البتھ ممکن ھے کھ یھ سبب صحیح اور پسندیده سبب نھ ھو ، یعنی ایک بے انصافی یا ظلم کسی چیز کے متحقق ھونے کا سبب ھو۔
لوگوں کے درمیان ان الفاظ کو استعمال کرنے میں، جو ایک خاص نقطھ نظر کی وجھ سے ھیں اس کے بعض اسباب مندرجھ ذیل ھیں:
الف) معاشرے میں موجود بے انصافیاں، ظلم اور معاشرے میں موجود امکانات کے استحقاق اور تقسیم میں بے ضابطگیاں۔
ب) لوگوں آرام طلبی کی عادت ،اور افراد کی بھره مندی تقدیر اور مقدر پر یقین کرنے کی وجھ کھنا۔
ج ) ظالم اور مطلق العنان حکومتوں کا اس طرح کے الفاظ کو رائج کرنا تا کھ لوگوں پر اپنی حکومت کو اور زیاده مستحکم کریں اور اس طرح لوگوں کے اعتراضات کی روک تھام کریں۔
قرآنی آیات اور روایات میں اقبال اور مقدرکے اس معنی کی طرف کوئی توجھ نھیں دی گئی ھے اور اس کو قبول نھیں کیا گیا ھے۔
۲۔ قسمت اور تقدیر الھی:
یھ معنی قابل قبول ھیں اور اس کا مطلب یھ ھے کھ انسان کی کامیابی خداوند متعال کی عنایات اور اپنی محنت سے میسر ھوتی ھے اور اس محنت میں انسان کی لیاقت اور اس کے سماجی شرائط اور ماحول کا اھم اثر ھے اور سماج میں موجوده فرق کا راز بھی یھی ھے۔
چانس (Chance) کا لفظ اصل میں فرانسیسی ھے جو فرصت کے معنی میں ھے۔ لیکن لوگوں کے درمیان چانس عام طور پر اس واقعھ کو کھتے ھیں جس کا سبب معلوم نھ ھو، لھذا اس واقعھ کو چانس اور مقدر سے نسبت دی جاتی ھے پس اگر چانس اور مقدر سے مراد کسی چیز کا سبب کے بغیر واقع ھونا ھو، تو یھ معنی اسلامی فلسفھ اور یقینی دلائل سے باطل ھے۔ [1]
اگر چھ ھم ان اسباب کو نھیں پھچانتے۔ لیکن اگر اسباب کے اوپر سے پرده اٹھه جائے توھم دیکھه سکیں گے کھ کوئی اتفاقی چیز موجود نھیں ھے۔
خوش قسمتی اور بد قسمتی اس سے زیاده کھ وه غیر معلوم اسباب کی وجھ سے ھو ، یھ ھر انسان کا اپنے بارے میں نقطھ نظر ذھنی نظریھ کا اثر ھوتا ھے اور جو اپنے آپ کو کسی بھی دلیل کی وجھ سے بد قسمت جانتا ھے ، وه قدرتی طور پر اسی کی نسبت کام انجام دیتا ھے۔
البتھ کبھی کبھی لوگوں کے درمیان قسمت ، "تقدیر الھی" میں استعمال ھوتا ھے ، مثال کے طورپر جس کی مالی حالت اچھی ھو اور عام طورپر مالی مسائل میں خوب نفع کماتا ھو وه اسے خوش قسمت کھتے ھیں ، اس مطلب کا تجزیھ کرنے کیلئے ھمیں واقعات کے اسباب کو وسیع نظر سے دیکھنا چاھئے اور انسان کے ظاھری عمل کے علاوه اس کی معنوی اور روحانی شرائط پر نظر کرنی چاھئے یھاں تک کھ گزشتھ نسلوں کے اثرات اور دوسروں کی دعاؤں اور نفرتوں کے اثر کو کسی فردکی زندگی میں، اس کے علاوه زندگی کی یکسانیت اور ناھمواریوں میں دوسرے مخفی اور ظاھر عوامل کی جانب بھی توجھ کرنی چاھئے۔ اگر قسمت سے مراد یھ معنی ھیں ۔ تو اس کی جڑیں قرآنی آیات اور روایات میں موجود ھیں اور دینی نقطھ نگاه سے مورد قابل قبول ھے۔ [2]
خداوند متعال کا ارشاد ھے :"خداوند نے تم سے بعض کو بعض پر روزی دینے لے لحاظ سے برتری عطا کی ھے"۔ [3]
حضرت امام علی علیھ السلام فرماتے ھیں: خداوند متعال نے روزی کو مقدر کیا ھے اور اسے زیاده یا کم عادلانھ طور پر تقسیم کیا ھے ، تا کھ اس طرح شکر گزاری اور صبر کے ذریعے امیر اور غریب کا امتحان کرے۔ [4]
اگر ھم قسمت کو اس کے منفی معنی ( یعنی بغیر سبب کےکسی چیز کا واقع ھونا ) میں لیتے ھیں ، تو ھم یھ کھھ سکتے ھیں که لوگوں میں اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے کے اسباب مندرجھ ذیل ھیں:
۱۔ سماج میںموجود بے انصافیوں اور ظلم کا رائج ھونا اور عدل و مساوات کا نافذ نھ ھونا۔ جب لوگ ان چیزوں پر نظرکرتے ھیں، جن کے اسباب غیر واقعی ھیں تو وه سب چیزوں کو قسمت کی طرف نسبت دیتے ھیں۔
۲۔ سماج میں آرام طلبی کی عادت اور بعض افراد کا رفاه سے بھره مند ھونے کو ان کی قسمت سے نسبت دینا۔
بعض لوگ جو اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے کم کوشش کرتے ھیں اوراپنے اعمال کا جلدی نتیجھ نکلنے کے خواھان ھیں جب وه دیکھتے ھیں کھ جلدی سے کسی کام میں ترقی حاصل نھیں کرسکتے ھیں تو وه دوسروں کی ترقی کو دیکھه کر اسے ان کی قسمت اور اقبال سے توجیھ کرتے ھیں۔
۳۔ مطلق العنان اور ظالم حکومتوں کا پروپگنڈه بھی معاشرے میں اس طرح کی فکر کو رائج کرنے میں بڑا اثر رکھتا ھے حکمراں اسی طرح کی توجیھات کرنے سے اپنے آپ کو حکومت تک پھنچنے میں اور اس کو جاری رکھنے میں اپنی خوش قسمتی سے ناطھ جوڑتے ھیں تا کھ لوگ ان کے خلاف اعتراض اور مظاھرے نھ کریں۔ [5]
لیکن قرآن کی منطق میں ، انسان کی اپنی آرزوں، الھی اور مادی نعمت تک پھنچنے میں سعی اور کوشش کو ایک خاص مقام حاصل ھوا ھے ۔ خداوند متعال کا ارشاد ھے: "خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نھیں بدلی ھے جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نھ ھو" [6] انسانوں کا اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو کام میں لانا ، خدا کی توفیق سے مختلف افراد میں روحانی اور سماجی اعتبار سے مختلف شرائط کے ھونے کے علاوه اور بھی دوسرے عوامل سے وابستھ ھے۔
البتھ اس کا یھ مطلب بھی نھیں کھ جو دنیاوی نعمتوں سے بھره مند ھوں ، وه صرف ان کے استحقاق یا ان کی کوشش یا خداوند متعال کی توفیق سے ھے بلکھ ممکن ھے اس کا سبب ظلم اور بے انصافی بھی ھو، جو دینی نقطھ نظر سے ناپسند اور باطل ھے ۔ [7]
[1] مطھری ، مرتضی ، بیست گفتار، ص ۰۸ ۔۔ ۸۳۔
[2] مزید آگاھی کیلئے ، رجوع کرین ، "نقش انسان در بدست آوردن روزی" سوال نمبر ۱۰۹۔
[3] سوره نحل / ۷۱ " واللھ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق"
[4] نھج البلاغۃ، خ ۹۱۔
[5] مطھری، مرتضی ، حماسھ حسینی ج ۱ ص ۳۶۲۔
[6] سوره رعد، / ۱۱ ترجمھ المیزان، ج ۱۱ ، ص ۴۲۷ ۔۔ ۴۲۶۔
[7] مزید آگاھی کیلئے ، رجوع کریں " فلسفھ وجود تفاوت ھا ، زشتی ھا و زیبایی ھا و ھدایت و اضلال ، سوال نمبر 2655 ( سائٹ نمبر 2806)