Please Wait
10085
خداوند متعال نے قرآن مجید میں، چار مرتبھ بندوں کو بھول جانے کی نسبت اپنی طرف دی ھے، جیسا کھ آیھ شریفھ میں فرمایا ھے " آج ھم انھیں اسی طرح بھلادیں گے جس طرح انھوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیاتھا" [i]
یھ آیت اور اس جیسی آیات اس بات کی تائید کرتی ھیں کھ آخرت میں (حتی که دنیا میں بھی) خدا بعض کو بھلا دے گا۔ لیکن اس بھلادینے کا مطلب کیا ھے؟ اسلام کے منابع میں موجود عقلی اور کلامی دلیلیں، خداوند متعال کی ذات سے ایسے بھلادینے کی نفی کرتی ھیں جس کا مطلب مخلوقات کے احوال سے بے خبر رھنا ھو، ۔ بلکھ خود خداوند متعال نے فرمایا: "کھ تمھارا پروردگار بھولنے والا نھیں ھے"۔
ائمھ معصومین علیھم السلام کی احادیث سے یھ واضح ھوتا ھے کھ خدا کے بھول جانے کا مطلب، غفلت اور عدم واقفیت نھیں ھے کیوں کھ خداوند متعال سب خفی امور سے باخبر ھے بلکھ اس سے مراد اُس رحمت الھی سے دوری ھے جس کے مخلوق محتاج ھیں۔
حضرت علی علیھ السلام فرماتے ھیں: کھ خداوند متعال کے بھول جانے کا مطلب یھ ھے کھ بندے کو اپنے خیر سے محروم کرتا ھے پس جھاں پر قرآن مجید میں، خدا کے بھول جانے کی بات ھوئی ھے اس کا مطلب بندے کو اپنے حال پر چھوڑنا اور خداوند متعال کی عنایت کے سائے کو اس کے اوپر سے اُٹھا لینا ھے۔ جس کا نتیجھ یھ ھے کھ بنده خدا کو بھول کر زیاده دنیا کمانے میں مشغول رھتا ھے۔ دوسری عبارت میں خداوند متعال کا بھول جانا، دین کی نسبت بندے کی بے توجھی اور بندے کا خدا کو بھول جانے کا تخلیقی نتیجھ ھے۔
اس سلسلے میں پھلے ان آیات کو ذکر کریں گے جن کی بنیادوں پر یھ سوال پیش آتا ھے۔ پھر قرآنی، عقلی اور حدیثی دلیلوں کے ذریعے اس سوال کا جواب دیں گے ، ھماری کوشش یه ھوگی کھ سوال کی تشریح کرکے اس سلسلے میں موجود ابھام اور تناقض کو دور کریں۔
قرآن مجید میں بعض ایسی آیات موجود ھیں جواس سوال کا پیش خیمھ بنتی ھیں کھ کیا خداوند متعال بعض بندوں کو فراموش کردیتا ھے؟ یھ آیات مندرجھ ذیل ھیں:
۱۔" آج ھم انھیں اسی طرح بھلادیں گے جس طرح انھوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیاتھا"
۲۔ اور ان سے کھا گیا کھ ھم تمھیں آج اس طرح نظر انداز کردیں گے جس طرح تم نےآج کے دن کی ملاقات کو بھلادیا تھا اور تم سب کا انجام جھنم ھے اور تمھارا کوئی مددگار نھیں" [1]
۳۔ " کھ اسی طرح ھمای آیتیں تیرے پاس آئیں اور تو نے انھیں بھلا دیا تو آج تو بھی نظر انداز کردیا جائے گا" [2]
۴۔ انھوں نے اللھ کو بھلا دیا تو اللھ نے انھیں بھی نظر انداز کردیا ھے ۔ [3]
ان آیات میں خداوند سبحان واضح طور پر بیان کرتا ھے کھ بعض اس کی بارگاه میں بھلادئیے جائیں گے ان آیات میں سے تین آیتیں روز قیامت کے بارے میں ھیں اور چوتھی آیت دنیا کے بار ے میں ھے۔ اب یھ سوال پیش آتا ھے کھ اولاً کیا خدا بھول جاتا ھے ؟ اور کیا صفت نسیان ( جس کے معنی خداوند متعال کے پاس کسی چیز کا حاضر نھ ھونا ھے) خدا کی نسبت دینا صحیح ھے؟
ثانیا : اگر یھ صحیح ھے تو اس کی کیفیت کو کس طرح بیان کیا جاسکتا ھے؟
اسلامی عقاید اور دینی اعتقادات کھ جو دلیل پر مبنی ھیں، میں پورے صفات سلبیھ کو من جملھ نسیا ن ( بھول جانا ) خداوند متعال سے سلب کیا جاتا ھے اور خداوندمتعال جو کمال اور علم کے سب درجات کا حامل ھے ھر طرح کے نقص و فقدان سے پاک ھے اور یھ بات مفصل طور پر معتبر اعتقادی اورکلامی منابع میں عقلی، فلسفیانھ دلیلوں کے ذریعے ثابت ھوئی ھے اور اس کا تفصیلی بیان اس اختصار میں ممکن نھیں ھے ۔[4]
قرآن مجید بھی واضح طورپر خداوند متعال کو اس نقص سے مبریِٰ قرار دیتا ھے اور فرماتا ھے " کھ تمھارا پروردگار بھولنے والا نھیں ھے " [5]
دوسری جگھ فرماتا ھے ۔ میرا پروردگار نھ بھکتا ھے اور نھ بھول جاتا ھے "[6]
پس ان آیات شریفھ کے مطابق بھی خداوند متعال کی ذات بھول چوک سے منزه ھے ۔
اب سوال یھ ھے کھ جو آیات خداوند متعال سے بھولنے کی نسبت دیتی ھیں ان کے کیا معنی ھیں؟
ائمھ معصومین علیھم السلام کی روایات ھمیشھ قرآنی آیات کی تفسیر کرکے ان میں موجود مسائل کو ھمارے لئے حل کرتی ھیں۔ یھ روایات یھاں پر بھی اس ابھام کو دور کرتی ھیں، حضرت امام رضا علیھ السلام آیھ شریفھ " فالیوم ننساھم" کی تفسیر میں ایک روایت بیان کرتے ھیں کھ "ننساھم" یعنی ھم انھیں چھوڑدیتے ھیں کیونکھ انھوں نے قیامت اور اس دن کے لئے آماده رھنے کو چھوڑدیا تھا ھم بھی اس دن انھیں اپنے حال پر چھوڑ دیں گے [7] پس ھم سمجھتے ھیں کھ فراموش کرنے سے مراد رحمت اور عنایت کی نظر کو بندے سے اٹھالینے کے معنی میں ھے۔ جیسا کھ حضرت علی علیھ السلام نے بھی اس سلسلے میں فرمایا ھے: "خدا کو بھول جانے کا مطلب یھ ھے کھ انھیں خیر سے محروم کرتا ھے ۔ [8]
اور حکیمانھ تدبیر عدالت کی بنیادوں پر اور بھولنے والوں کے چال چلن کے مطابق ھے خداوند متعال کی بھ نسبت ان بندوں کی مثال اس شاگرد کے مانند ھے کھ جس نے سال کے دوران اپنے سبق کی طرف توجھ نھیں کی ھے ۔ اس نے اپنے سبق اور استاد کے مستقبل سے کھلواڑ کیا ھے اور اس نے جب اس کی یھ حالت دیکھی تو اسے اپنے حال پر چھوڑ کر امتحان کے دن اپنی حمایت اور مدد سے اس کو محروم رکھا ھے۔
البتھ اس نکتھ کی جانب توجھ کرنا ضروری ھے کھ خداوند متعال کے اپنے بندوں کی نسبت رحمت سے محرومیت کی شرط یھ ھے کھ بندے خدا کو بھول کر اپنے دین اور مذھب کے ساتھه کھلواڑ کرکے، دنیا میں مشغول اور مغرور ھوجائیں [9]
یعنی خدا اس کے بھولنے کا بدله بھولنےسے ھی دیتا ھے جیسا کھ خدا کی یاد جو "نسیان" کےمقابلے میں ھے فرماتا ھے :"مجھے یاد کرو تا کھ تمھیں یاد کروں " [10]
پس جوکچھه بیان ھوا کھ خداوند متعال نے بھولنے کو اپنی جانب نسبت دی ھے۔ اور دوسری جانب عقل اور قرآن سے ثابت ھوتا ھے کھ جو فراموشی غفلت اور ناآگاھی کا نتیجھ ھے خداوند جو کھ کمال مطلق ھے اور وه عالم الغیب جس کے علم کے احاطے سے ذره بھی باھر نھیں ھے، [11] کی نسبت محال ھے ۔ پس خداکی فراموشی سے مراد اس کی بے توجھی اور اس کی عنایت اور رحمت کا سایھ انسان سے اٹھنا اور خداوند متعال کی خیر و برکت سے محروم رھنا ھے ، امید ھے کھ قرآن کی آیات میں تدبرکرنے کی توفیق روز بروز ھم خالی ھاتھه بندوں کو نصیب ھوجائے تا کھ خدا کی رحمت اور غفران ھم کو شامل ھوجائے۔
[1] سوره جاثیھ / ۳۴۔ و قیل الیوم ننساکم کما نسیتم لقاء یومکم ھذا۔
[2] سوره طھ / ۱۲۶۔ کذالک اتتک ایاتنا فنسیتھا و کذلک الیوم تنسی۔
[3] سوره توبھ / ۶۷۔ نسوا للھ فنسیھم۔ سوره توبھ / ۶۷۔
[4] القول السدید فی شرح التجرید، ص ۲۷۴۔ بھ بعد، اور عقاید اسلامی فصول ، ۲۲ ۔۔ ۱۵۔
[5] سوره مریم / ۶۴۔ و ما کان ربک نسیا۔
[6] سوره طھ / ۵۲۔ لا یضل ربی و لا ینسی۔
[7] تفسیر نور بھ استناد نور الثقلین۔
[8] تفسیر نور بھ استناد تفسیر برھان ، ،سوره توبھ ، ۶۷۔
[9] سوره اعراف سے اقتباس، آیت ۵۱۔ اور جاثیھ ، ۳۵ اور ۳۴۔
[10] سوره بقره، ۵۳، فاذکرونی اذکرکم۔
[11] سوره سبا، / ۳ عالم الغیب لا یعزب عنھ منقال زرۃ فی السموات و لا فی الارض و اصغر مں ذلک و لا۔۔۔۔