Please Wait
10536
تحفہ دینا اور دوسروں سے تحفہ حاصل کرنا، رسول اکرم{ص} کی عملی سیرت تھی۔ لیکن آنحضرت{ص} سے نقل کی گئی ایک حدیث کے مطابق، یہ کام اپنے اور دوسروں کے لیے زحمت کا سبب نہیں بننا چاہئیے، کیونکہ اس کام کا مقصد ، انس و محبت بڑھانا ہے اور اگر اس کام کے آداب اور شرائط کی رعایت نہ کی جائے تو ہم مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔
دینی تعلیمات میں جس چیز کی تاکید کی گئی ہے وہ، دوسروں کو تحفہ دینا ہے، لیکن اس مسئلہ کی یاددہانی کرانا ضروری ہے کہ دینی کتابوں میں تحفہ، مادی تحفوں کی بہ نسبت ایک وسیع تر مفہوم ہے اور معنوی تحفے بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔
پیغمبراسلام{ص} سے اس سلسلہ میں کثرت سے احادیث نقل کی گئی ہیں، ان میں سے بعض کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ " ایک مسلمان کی شرافت و بزرگی یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کے تحفہ کو قبول کرے، اور جو وہ رکھتا ہو اس میں سے اس کو تحفہ دیدے اور اپنے آپ کو اس کے لیے مشقت و زحمت میں نہ ڈالے،" اس کے بعد فرمایا: " میں ان کو دوست نہیں رکھتا ہوں، جو اس سلسلہ میں اپنے آپ کو زحمت میں ڈالتے ہیں[1]۔"
اس روایت میں پیغمبراسلام{ص} تحفہ دینے اور لینے کو ایک مسلمان کی شرافت جانتے ہیں اور اس کلام میں جو ایک لطیف نکتہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تحفہ، مشقت و زحمت کا سبب نہیں بننا چاہئیے اور تحفہ کو منتخب کرتے وقت مالی طاقت کو مدنظر رکھنا چاہئیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ "تکلف" کا مصداق ہوگا اور مدنظر "تحفہ" کے برخلاف ہوگا۔
۲۔ امام باقر{ع} نے فرمایا ہے: " رسول خدا{ص} تحفہ کو قبول کرتے تھے لیکن صدقہ لینے سے پرہیز کرتے تھے اور فرماتے تھے: ایک دوسرے کو تحفہ دیدو، کیونکہ تحفہ دلوں کو صاف کرتا ہے اور دیرینہ کینہ اور دشمنیوں کو دور کرتا ہے[2]۔"
۳۔ امام رضا{ع} اپنے والد اور جد بزرگوار سے نقل کرتے ہیں کہ: رسول اکرم{ص} تحفہ پسند کرتے تھے، اس کا مطالبہ کرتے تھے اور جواب میں خود بھی اس کے لیے اقدام فرماتے تھے[3]۔"
۴۔ رسول خدا{ص} نے فرمایا ہے: " تحفہ تین قسم کا ہے: ایک کسی کے تحفہ کے جواب میں، دوسرا صلح و آشتی کے لیے اور تیسرا خدا کی خوشنودی کے لیے[4]۔"
۵۔ رسول خدا{ص} نے فرمایا ہے: " اگر مجھے کوئی شخص گائے یا بھیڑ کے پائے کھانے کی دعوت دے گا تو میں اسے قبول کروں گا اور اگر گائے یا بھیڑ کے پائے مجھے تحفہ کے طور پر بھیجدئے جائیں گے تو میں اسے قبول کروں گا۔[5]"
آنحضرت{ص} نے مثال کے طور پر گائے یا بھیڑ کے پائے کا ذکر فرمایا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اگر مجھے تحفہ کے طور پر کوئی معمولی چیز بھی دے دے تو، میں اسے قبول کروں گا۔
۶۔ رسول اکرم{ص} نے فرمایا ہے: " جس برتن میں تحفہ لایا گیا ہو، اسے واپس کرنے میں جلدی کرنا چاہیے تا کہ {تحفہ لانے والا پشیمان نہ ہو جائے اور } آپ کے لیے اور بھی تحفہ لائے[6]۔
۷۔ امام رضا{ع} نے اپنے اجداد اور رسول خدا{ص} سے روایت نقل کی ہے اور فرمایا ہے: " تحفہ ایک اچھی چیز ہے، کیونکہ یہ حاجتوں کی کلید ہے۔"
ہم نے جو روایتیں تحفہ کے بارے میں ذکر کیں، ان سے نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اس کام کی کافی اہمیت ہے، اور رسول اکرم{ص} نے اس کی سفارش فرمائی ہے، لیکن اس کے بارے میں بیان کی گئی خصوصیات اور شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے، کیونکہ تحفہ کا اصلی مقصد، انس ومحبت کو بڑھاوا دینا اور کینہ اور کدورتوں کو دور کرنا ہے۔
[1]طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الأنوار، ص 219، کتابخانۀ حیدریه، نجف، 1385ق.
[2]همان.
[3]همان.
[4]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج 5، ص 141، ح 1، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365ش.
[5]صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، ج 3، ص 299، انتشارات جامعۀ مدرسین، قم، 1413 ق.
[6]همان، ص 300.