Please Wait
15210
ارتداد، دین سے خارج هونے کا وسیله اور اظهار هے، اور اکثر دوسروں کی تبلیغ کی وجه سے یه { دین سے خارج هونا} انجام پاتا هے- مرتد کی سزا اس شخص کو نهیں دی جا سکتی هے، جو دین سے خارج هو چکا هے، لیکن اس کا دوسروں کے سامنے اعتراف و اظهار نه کیا هو- مرتد کی سزا تو اسے اجتماعی گناه کے سبب دی جاتی هے نه که اس کے ذاتی عقیده کی وجه سے-
مرتد، ایک معاشره کے دینی جذبات کو تحفظ بخشنے کے عوامی حق کو پامال کرتا هے اور دین کے معاملے میں ماهر نه هونے والے لوگوں کے تدین کو خطره سے دوچار کرتا هے- صدر اسلام میں بھی کچھه اسلام دشمنوں نے نقشه کھینچا تھا که ظاهری طور پر اسلام قبول کرکے مرتد هو جائیں تاکه اس طرح مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کریں[i]-
اسلام نے اس خطره کو روکنے کے لئے، ارتداد کے لئے سخت سزا رکھی هے، اگرچه اس کو ثابت کرنے کے طریقه کو بھی سخت کیا هے، اس طرح صدر اسلام میں صرف چند گنے چنے افراد کو هی یه سزا ملی هے- اس لحاظ سے، اس سزا کے نفسیاتی اثر نے خود سزا کے مقابله میں زیاده عام لوگوں کے لئے سلامتی کا ماحول فراهم کرنے میں مدد کی هے-
اس سوال کے جواب کی وضاحت کے لئے درج ذیل چند مطالب کی طرف توجه کرنا ضروری هے:
پهلا مطلب: مرتد کون هے؟ مرتد وه هے جو اسلام کے دائرے سے خارج هو کر کفر کو اختیار کرے[1]- اسلام سے خارج هونا، اصل دین کے انکار، یا اصول دین { توحید، نبوت اور معاد} میں سے کسی ایک کے انکار سے عمل میں آتا هے- اس کے علاوه اگر ضروریات دین--- جو تمام مسلمانوں کے لئے واضح اور عیاں هیں--- میں سے کسی کا انکار، رسالت کے انکار کا سبب بنے اور انسان اس سبب کی طرف توجه رکھتا هو تب بھی ارتداد عمل میں آتا هے[2]-
ارتداد دو حصوں میں تقسیم هوتا هے: مرتد فطری اور مرتد ملّی:
مرتد فطری، وه شخص هے، جس کا نطفه منعقد هوتے وقت ماں باپ مسلمان رهے هوں اور خود بھی بالغ هونے کے بعد اظهار اسلام کر چکا هو اور اس کے بعد اسلام سے خارج هو جائے[3]-
مرتد ملی، وه شخص هے، جس کے نطفے کا انعقاد هوتے وقت { اس کے } ماں باپ کافر تھے، اور اس نے بالغ هونے کے بعد اظهار کفر کیا هو اور اس کے بعد اسلام قبول کرنے کے بعد پھر سے کافر هو چکا هو[4]-
دوسرا مطلب: ادیانِ الهٰی اور اسلام میں مرتد کا حکم:
شیعه فقه میں، ارث و زوجیت کے باب میں مرتد کے لئے کچھه شهری قوانین کے احکام هیں، بظاهر یه احکام مذکوره سوال کے دائره سے خارج هیں-
مرتد کا تعزیری حکم یه هے که: اگر مرتد فطری مرد هو تو اسے قتل کیا جاتا هے اور جج کے پاس اس کی توبه قابل قبول نهیں هے- لیکن اگر مرتد ملی هو تو، پهلے اسے توبه کرنے کی دعوت دی جاتی هے اور اگر اس نے توبه کی تو اسے آزاد کیا جاتا هے، ورنه قتل کیا جاتا هے- مرتد شده عورت، خواه وه مرتد فطری هو یا مرتد ملی ، قتل نهیں کی جاتی هے، بلکه اسے توبه کی دعوت دی جاتی هے، اگر اس نے توبه کی تو اسے چھوڑ دیا جاتا هے، ورنه اسے زندان میں رکھا جاتا هے[5]-
اهل سنت کی فقه میں، رائے مشهور کے مطابق، مرتد کو ---- اس کی تمام قسموں میں ----- پهلے توبه کی دعوت دی جاتی هے، اگر اس نے توبه کی تو اسے آزاد کیا جاتا هے ، ورنه قتل کیا جاتا هے اور مرتد ملی، مرتد فطری اور مرد اور عورت میں کوئی فرق نهیں هے[6]-
اسلام کے علاوه دوسرے ادیان الهٰی میں ارتداد جرم و گناه شمار هوتا هے اور اس کی سزا موت هے[7]-
اس بنا پر، کها جا سکتا هے که تمام ادیان و مذاهب کے مطابق ارتداد جرم و گناه هے اور اس کی سزا { شرائط میں اختلاف کے ساتھه } موت هے[8]-
تیسرا مطلب: مرتد کی سزا کا فلسفه:
مرتد کی سزا کا فلسفه واضح طور پر سمجھنے کے لئے درج ذیل چند نکات کو مدنظر رکھنا ضروری هے:
۱۔ اسلام کے احکام دو حصوں میں، یعنی انفرادی احکام اور اجتماعی احکام میں تقسیم هوتے هیں- اجتماعی احکام، اجتماعی مصلحتوں کی بنیاد پر وضع هوتے هیں، اور بعض اوقات ان مصلحتوں کو پورا کرنا انسان کی انفرادی آزادی کے ایک حصه کو محدود کرنے کا سبب بن جاتا هے- یه نکته کسی بھی معاشره میں ناقابل انکار هے-
۲۔ اگر مرتد نے حق کو جاننے کے لئے پوری کوشش کی هو تو، وه اپنے ارتداد میں، خدا کے حضور معذور هے اور حقیقت میں انفرادی احکام کے دائره میں مجرم نهیں هے[9]- لیکن اگر اس نے حق کو پهچاننے میں کوتاهی کی هو، تو وه اپنے انفرادی احکام کے دائرے میں بھی مجرم هے-
اگر مرتد، اپنے ارتداد کو معاشره تک پھیلائے تو اس کا یه عمل اجتماعی احکام کے دائره میں آتا هے ار اجتماعی احکام کے معیار پیدا هوتے هیں اور اس اعتبار سے وه مجرم هے، کیونکه:
اولاً: اس نے دوسروں کے حقوق کو ضائع کیا هے، کیونکه وه عام لوگوں کے ذهنوں میں شک و شبهه پیدا کرتا هے اور ظاهر هے که معاشره کے عام لوگوں کے ذهنوں میں شبهات کی ترویج، ایمانی جذبے کو کمزور کرنے کا سبب بن جاتی هے اور چونکه شبهات کی تحقیق کرنا دین کے علماء اور ماهرین کا کام هے، اس لئے تمام دیندار--- جن میں یه توانائی نهیں هوتی هے---- حق رکھتے هیں که معاشره کی عام فضا، شبهات پیدا هونے سے محفوظ رهے-
ثانیاً: اس سے قطع نظر که معاشره کے ایمانی جذبه کا تحفظ کرنا لوگوں کا حق هے، اسلام اسے اجتماعی مصلحتوں میں سے جانتا هے، لهٰذا اسلام نے شعائر دینی کی تعظیم کے لئے ترغیب دی هے[10]- اور اس کو توڑنے سے منع کیا هے[11]- نتیجه یه که ارتداد شاید انفرادی حکم کے لحاظ سے جرم نه هو، لیکن اجتماعی حکم کے لحاظ سے جرم هے-
۳۔ ارتداد کے جرم هونے کے پیش نظر، اس کی سزا کے فلسفه کو مندرجه ذیل امور میں بیان کیا جاسکتا هے:
الف: سزا کا حق:
مرتد کی سزا، ایک ایسی تعزیر هے که معاشره کے اخلاقی نظم و انتظام میں ایجاد شده خرابی کی وجه سے عمل میں آتی هے- جس قدر اخلاقی و مذهبی خرابی اور عام لوگوں کے حقوق زیاده پامال هوں، اس کی سزا اتنی هی سنگین تر هونی چاهئیے- ظاهر هے که جس معاشره میں دینی جذبات اور اعتقادات کمزور هو جائیں، وه معاشره حقیقی سعادت سے محروم هوتا هے، اگرچه ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی یافته بھی هو- اسی وجه سے ارتداد کے علاوه، هر وه کام، جو لوگوں کے اعتقادات و ایمان کو کمزور کرنے کا سبب بنے، اس کی سنگین سزا هوتی هے، جیسے: پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کی توهین کرنا، کیونکه جب معاشره میں ان امور کا تقدس پامال هو جائے، تو دین میں تحریف ایجاد هونے اور دین کے نابود هونے کی راه کھل جاتی هے-
ب۔ مجرم کے ذریعه ارتداد کی تبلیغ کو جاری رکھنے سے روکنا:
مرتد، جب تک اپنے ارتداد کا اظهار نه کرے، وه اجتماعی جرم کا مرتکب نهیں هوتا هے، اسلام کی طرف سے ارتداد کے لئے جو سنگین سزا معین کی گئی هے، وه ارتداد کی تبلیغ میں رکاوٹ بنتی هے-
ج۔ معاشره میں دین کی اهمیت کا مظاهره کرنا:
هر قانونی اور تعزیری نظام اپنے قوانین وضع کر کے اس امر کا مظاهره کرتا هے که اس کے لئے کون سے امور زیاده اهمیت رکھتے هیں- ارتداد کے لئے سنگین سزا کا معین کرنا، معاشره کے ایمانی جذبه کے تحفظ کی اهمیت کا ثبوت هے-
د۔ دین کو قبول کرنے سے پهلے، اس میں زیاده سے زیاده غور و فکر کرنے کی ترغیب:
مرتد کی سزا، غیر مسلمانوں کو ترغیب دیتی هے که اسلام کو پوری تحقیق کے بعد قبول کریں- یه مسئله سست اور کمزور ایمان سے بچاتا هے-
ھ۔ اخروی سزا میں تخفیف:
دین کے مطابق، دنیوی سزا، اخروی سزا میں تخفیف پیدا هونے کا سبب بن جاتی هے- خداوند متعال اس سے زیاده مهربان هے که انسان کو ایک گناه کے لئے دو سزائیں دے- روایتوں سے معلوم هوتا هے که صدر اسلام میں یه اعتقاد موجود تھا که دنیوی سزا آخرت میں گناه کے پاک هونے کا سبب بنتی هے اور یهی وجه هے که مجرموں پر حد جاری کرنے کے لئے، اقبال جرم کی همت افزائی کی جاتی تھی-
نوٹ: اگرچه کم از کم دنیوی سزا، اخروی سزا کے تخفیف کا سبب بنتی هے، لیکن خداوند متعال نے آخرت میں پاک هونے کے لئے ایک اور صورت عنایت کی هے اور وه مخلصانه طور پر توبه هے- اگر گناهگار مخلصانه طور پر توبه کرے تو دنیا میں شرعی سزا پائے بغیر اس کے گناه بخش دئے جاتے هیں-
۴۔ قانون سازیه میں احتیاط: شائد، مرتد کی سزا کے فلسفه کے عنوان سے مذکوره موارد اور جو کچھه قرآن مجید میں اهل کتاب کی سازشوں کے بارے میں نازل هوا هے[12]، ان کے تمام مصادیق میں مرتد صادق نه آتا هو، یعنی مرتد شخص کسی صورت میں عام ایمان کے خلاف سازش کا قصد نه رکھتا هو یا اس کے ارتداد کے عام لوگوں کے ایمان پر منفی اثرات نه پڑتے هوں، پھر بھی اسلام نے اس کی سزا میں کسی قسم کی چھوٹ نهیں دی هے- اس کی وجه کیا هے؟ به الفاظ دیگر، ممکن هے مرتد کی سزا سے متعلق امور میں سے کسی ایک امر میں یه فلسفه صادق نه آتا هو، پھر کیوں اسلام نے اس معامله میں بھی سزا رکھی هے؟
اس کا جواب یه هے که هر قانون ساز حکم کے موضوع کے دائره کو اس کے فلسفه سے وسیع تر قرار دیتا هے که اسے " قانون سازیه میں احتیاط" کهتے هیں اور یه چند نکات کی وجه سے هے که هم یهاں پر ان میں سے صرف دو نکتوں کی طرف اشاره کرنے پر اکتفا کرتے هیں:
الف: بعض اوقات کسی موضوع کو حقیقی اور باریک بینی سے مشخص کرنے والی قید و شرط ایسی نهیں هوتی هے که ان کی تشخیص کی ذمه داری کو انسان پر چھوڑ دیا جائے- مثلاً ایک سڑک پر گاڑی کو پارک کرنے کی ممانعت کا اصلی فلسفه، اس سڑک پر ٹریفک کو کنٹرول کرنا هے اور یه فلسفه ٹریفک سے خالی دنوں میں معدوم هو جاتا هے، لیکن ٹریفک پولیس گاڑی کو اس سڑک پر پارک کرنے کو همیشه ممنوع قرار دیتی هے- کیونکه وه ٹریفک کے مشکلات کی تشخیص کو لوگوں پر نهیں چھوڑ سکتی هے-
ب۔ کبھی ایک حکم کی اس قدر اهمیت هوتی هے که قانون ساز احتیاط کے طور پر اس حکم کے موضوع کو وسیع تر قرار دے دیتا هے تاکه اسے یقین حاصل هو جائے که لوگ حتمی طور پر اس حکم پر عمل کریں گے- فوج کی چھاونیوں کی مانند، مثلاً فوجی تنصیبات، جو لوگوں کی نظروں سے دور هونی چاهئیں، پانچ کلومیٹر کے دائره میں حفاظت بندی سے محفوظ ره سکتی هوں، لیکن فوج ان تنصیبات کی اهمیت کے پیش نظر حفاظت بندی کو کئی گنا وسعت دیتی هے تاکه اس سے یه مقصد پورا هو جانے کا یقین هو جائے-
اسلامی سزاوں کے فلسفه کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجه ذیل کتابوں کا مطالعه کیا جا سکتا هے:
۱۔ " فلسفه حقوق" ، تالیف: قدرت الله خسروشاهی- مصطفی دانش پژوه، ص ۲۲۲—۲۰۱ ،
۲۔ "عدل الهٰی " تالیف: شهید مرتضی مطهری رح
۳۔ تفسیر المیزان، علامه طباطبائی رح،ج ۲، ص ۲۷۸ تفسیر آیه " لا اکراه فی الدین"
۴۔ تفسیر نمونه، ج ۲، ص ۳۶۰
[1] امام خمینى، تحریر الوسیله، ج2، ص 366؛ ابن قدامه، المغنى، ج 10، ص 74.
[2] ایضاً، ج1، ص 118.
[3] ایضاً، ج 2، ص 336؛ بعض فقها ولادت کے وقت والدین میں سے کسی ایک کے مسلمان هونے کو شرط جانتے هیں (خویى، مبانى تکلمة المنهاج، ج2، ص 451) اور بعض دوسرے فقها بالغ هونے کے بعد اسلام کا اظهار شرط نهیں جانتے هیں (شهید ثانى، مسالک الافهام، ج2، ص 451).
[4] امام خمینى، تحریر الوسیله، ج2، ص 336.
[5] ایضاً، ج2، ص 494.
[6] الجزیرى، الفقه على المذاهب الاربعة، ج 5، ص 424؛ ابو حنیفه نے شیعوں کے مانند مرد اور عورت میں فرق کیا هے- (ابوبکر الکاسانى، بدایع الصنایع، ج 7، ص 135) اور حسن بصری توبه کی دعوت کو قبول نهیں کرتے هیں (ابن قدامه، المغنى، ج10، ص 76).
[7] ملاخطه هو: عهد قدیم: سفر توریه مثنى، فصل 13؛ کتاب مقدس، ترجمهى فارسى ولیم گلن، دار السلطنه، لندن، 1856 میلادى، ص 357 - 8؛ الکتاب المقدس، دار المشرق، بیروت، سفر ثنیة الاشتراع، الفصل 13، ص 379 - 80. - عهد جدید سازمان ترجمه تفسیرى کتاب مقدس، تهران، 1357، ص 305 – 6۔
[8] البته بعض ارتداد کے لئے موت کی سزا کو حکم تعزیری جانتے هیں نه حد، اور ان کا اعتقاد هے که تعزیرات مکمل طور پر حاکم کے هاتھه میں هیں اور اس میں اس کے لئے کوئی خاص صورت معین نهیں هوئی هے، لهذا نهیں کها جا سکتا هے که اسلام کے مطابق ارتداد کی سزا موت هے- ملاخطه هو: حسینعلى منتظرى، دراسات فى ولایة الفقیه و فقه الدولة الاسلامیة، ج3، ص 387؛ مزید ملاخطه هو: عیسى ولایى، ارتداد در اسلام، ص 148 - 129.
[9] خداوند متعال نے ارشاد فرمایا هے: "لا یکلف اللَّه نفساً الّا وسعها"، بقره ، 286.
[10] حج، 32.
[11] مائده، 2.
[12] آل عمران، 72.