Please Wait
کا
4852
4852
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2011/05/17
سوال کا خلاصہ
میری نظر میں تمام منطقی دلالتیں اس کی طرف اشاره کرتی ھیں که آگاھی حاصل کرنے کے لئے مرجع کی طرف رجوع کرنا چاھئے نه که اس کی تعبدی تقلید کے لئے که جو کچھ وه کهے اسے قبول کریں، کیونکه ھرشخص اپنے اعمال کا مسئول ھے اور کوئی دوسرا اس کا جواب ده نھیں ھوسکتا ھے، اس بناپر تقلید کے کیا معنی ھیں؟ اور ھمارے علماء اپنے جواب کے طریقه استنباط کو ھمیں کیوں نھیں بتاتے ھیں؟
سوال
تقلید کے معنی کیا ھیں؟
ھمارے علماء اپنے جواب کے طریقه استنباط کو ھمیں کیوں نھیں بتاتے ھیں؟ کچھ ایسی آیتیں پائی جاتی ھیں، جن میں فرمایا گیا ھے که:" ھر انسان اپنے اعمال کا مسئول ھے، حتی که اگر دوسروں نے اسے گمراه بھی کیا ھو۔"
خداوند متعال سوره اسراء کی آیت ۱۵میں ارشاد فرماتا ھے:" جو شخص بھی ھدایت حاصل کرتا ھے وه اپنے فائده کے لئے کرتا ھے اور جو گمراھی اختیار کرتا ھے وه بھی اپنا ھی نقصان کرتا ھے اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نھیں ھے اور ھم تو اس وقت تک [کسی قوم پر عذاب کرنے والے نھیں ھیں جب تک که کوئی رسول نه بھیج دیں [تاکه ان کے فرائض کو بیان کرے]۔"
اسی طرح سوره فصلت کی آیت ۴۶ میں ارشاد فرماتا ھے :" جو بھی نیک عمل کرے گا وه اپنے لئے کرے گا اور جو برا کرے گا اس کا ذمه دار بھی وه خود ھی ھوگا اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نھیں ھے۔"
اسی طرح سوره فاطر کی آیت ۱۸ میں ارشاد فرماتا ھے:" اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناھوں کا بوجھ نھیں اٹھا ئے گا اور اگر کسی کو اٹھانے کے لئے بلایا بھی جائے گا، تو اس سے کچھ بھی نه اٹھا یا جاسکے گا، چاھے وه قرابتدار ھی کیوں نه ھو۔ آپ صرف ان لوگوں کو ڈرا سکتے ھیں جو از غیب خداسے ڈرنے والے ھیں اور نماز قائم کرنے والے ھیں اور جو بھی پاکیزگی اختیار کرے گا وه اپنے فائده کے لئے کرے گا اور سب کی بازگشت خدا ھی کی طرف ھے۔"
اس کے علاوه کهاگیا ھے که قیامت کے دن ھر شخص اپنے امام کے ساتھ محشور ھوگا نه که اپنے مرجع کے ساتھ ۔ میری نظر میں منطقی دلالتیں اس کی طرف اشاره کرتی ھیں که مرجع کی طرف آگاھی حاصل کرنے کے لئے ان مسائل میں رجوع کرنا چاھئے جن کو انسان نھیں جانتا ھے تا که اسے آگاھی حاصل ھوجائے نه که اس لئے که اس کی تقلید کی جائے، اس معنی میں که جو کچھ وه کهے اسے تعبداً قبول کیا جائے کیونکه ھر انسان اپنے اعمال کا خود مسئول ھے اور کوئی دوسرا اس کا جوابده نھیں ھوگا۔
ھمارے علماء اپنے جواب کے طریقه استنباط کو ھمیں کیوں نھیں بتاتے ھیں؟ کچھ ایسی آیتیں پائی جاتی ھیں، جن میں فرمایا گیا ھے که:" ھر انسان اپنے اعمال کا مسئول ھے، حتی که اگر دوسروں نے اسے گمراه بھی کیا ھو۔"
خداوند متعال سوره اسراء کی آیت ۱۵میں ارشاد فرماتا ھے:" جو شخص بھی ھدایت حاصل کرتا ھے وه اپنے فائده کے لئے کرتا ھے اور جو گمراھی اختیار کرتا ھے وه بھی اپنا ھی نقصان کرتا ھے اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نھیں ھے اور ھم تو اس وقت تک [کسی قوم پر عذاب کرنے والے نھیں ھیں جب تک که کوئی رسول نه بھیج دیں [تاکه ان کے فرائض کو بیان کرے]۔"
اسی طرح سوره فصلت کی آیت ۴۶ میں ارشاد فرماتا ھے :" جو بھی نیک عمل کرے گا وه اپنے لئے کرے گا اور جو برا کرے گا اس کا ذمه دار بھی وه خود ھی ھوگا اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نھیں ھے۔"
اسی طرح سوره فاطر کی آیت ۱۸ میں ارشاد فرماتا ھے:" اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناھوں کا بوجھ نھیں اٹھا ئے گا اور اگر کسی کو اٹھانے کے لئے بلایا بھی جائے گا، تو اس سے کچھ بھی نه اٹھا یا جاسکے گا، چاھے وه قرابتدار ھی کیوں نه ھو۔ آپ صرف ان لوگوں کو ڈرا سکتے ھیں جو از غیب خداسے ڈرنے والے ھیں اور نماز قائم کرنے والے ھیں اور جو بھی پاکیزگی اختیار کرے گا وه اپنے فائده کے لئے کرے گا اور سب کی بازگشت خدا ھی کی طرف ھے۔"
اس کے علاوه کهاگیا ھے که قیامت کے دن ھر شخص اپنے امام کے ساتھ محشور ھوگا نه که اپنے مرجع کے ساتھ ۔ میری نظر میں منطقی دلالتیں اس کی طرف اشاره کرتی ھیں که مرجع کی طرف آگاھی حاصل کرنے کے لئے ان مسائل میں رجوع کرنا چاھئے جن کو انسان نھیں جانتا ھے تا که اسے آگاھی حاصل ھوجائے نه که اس لئے که اس کی تقلید کی جائے، اس معنی میں که جو کچھ وه کهے اسے تعبداً قبول کیا جائے کیونکه ھر انسان اپنے اعمال کا خود مسئول ھے اور کوئی دوسرا اس کا جوابده نھیں ھوگا۔
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے