Please Wait
7151
یه مسئله اس بات سے جڑا هوا هے که وجود و هستی کے مسئله کو فلاسفه اور مکاتب فلسفی کس نگاه سے دیکھتے هیں۔ فلاسفه مشاء کی طرف منسوب [کثرت وجود و موجود] کے نظریه کا خلاصه یه هے که کثرت موجودات کا انکار نهیں کیا جاسکتا، اور یه بھی ماننا پڑے گا که ان میں سے هر ایک اپنا الگ الگ اور مخصوص وجود رکھتا هے اور چونکه وجود ایک بسیط حقیقت هے لهذا هر وجود دوسرے وجود کے لئے متبائن هوگا اور وه بھی متبائن بتمام ذات۔
لیکن حکمت متعالیه کے فلاسفه کے یهاں یه بات قابل قبول نهیں هے۔ ان کے مشهور و معروف [عین کثرت میں وحدت] کے مبنا میں بتایا جاتا هے که وجود کے عینی حقائق میں وحدت و اشتراک بھی هے اور اختلاف و تمایز بھی، لیکن ان کا [ما به الاشتراک] اور [ما به الامتیاز] ایسا نهیں هے که جو خود ذات وجود میں ترکیب کا سبب بن جائے یا ان کو جنس یا فصل کے اعتبار سے قابل تحلیل بنادے، بلکه ان کے [مابه الامتیاز] کی بازگشت شدت و ضعف کی طرف هے۔ جیسا که شدید اور ضعیف نور کا اختلاف اس کے شدت و ضعف کے سبب هے، لیکن اس کا مطلب یه نهیں هے که شدید نور کی شدت، نور کے علاوه کوئی اور چیز یا ضعیف نور کا ضعف، نور کے علاوه کسی اور چیز هو۔
فلاسفه مشاء کی طرف اس نظریه کو منسوب کرنے میں ﮐﭼﻬ تأمل هے۔ استاد مطهری (ره) شرح منظومه میں فرماتے هیں: [یه نظریه متکلمین اشاعره کے درمیان دکھائی دیتا هے اور کبھی کبھی اس کی بو حکمائے مشائین کے کلمات میں بھی محسوس هوتی هے، البته حکمائے مشائین مثلا فارابی یا بو علی سینا (رئیس مشائین) کے درمیان باقاعده طور پر یه بحث نهیں هوئی هے۔ کیونکه جس طرح وحدت وجود کی بحث مسئله اصالت وجود کی قبولیت پر موقوف هے اسی طرح وجود کی متبائن کثرت بھی اصالت وجود کی قبولیت پر موقوف هے۔ یعنی پهلے یه لوگ مسئله اصالت وجود کو زیر بحث لاکر اس سے فارغ هوگئے هوں تاکه تبائن کا مسئله پیش هوسکے۔ لیکن یه بات اپنی جگه ثابت هوچکی هے که ان کے سامنے اصالت وجود کا مسئله پیش هی نهیں هوا تھا اور یه مسئله فارابی اور بوعلی کے بعد کے مسائل میں شمار هوتا هے۔[1]
بهرحال فلاسفه مشاء، وجود کو اصل مانتے هیں لیکن ان کا نظریه هے که دوسرے وجود کے ساﺗﻬ هر وجود، متبائن بتمام ذات هے۔ یعنی اشیاء اپنی ماهیت سے آگے بڑھ کر انھیں ماهیات کے اعتبار سے مقولات کے تحت آتی هیں اور انھیں مقولات کے لحاظ سے (اگر ایک مقوله میں هوں تو) مابه الاشتراک اور (اگر کئی مقوله میں هوں تو) مابه الامتیاز رکھتی هیں۔ وجود کے اعتبار سے بھی تمام اشیاء ایک دوسرے سے متبائن بتمام ذات هیں؛ یعنی وجود آپس میں کوئی اشتراک نهیں رکھتے، وجود کا باهمی رابطه خود مقولات کے باهمی رابطه کی طرح هے؛ مثلا جس طرح کم و کیف کے مقوله آپس میں کوئی وجه مشترک نهیں رکھتے (اور مقولات الگ الگ هونے کا مطلب یهی هے) اسی طرح هر وجود بھی دوسرے وجود کے ساﺗﻬ بالکل اسی طرح هے۔
فلاسفه مشاء کی نگاه میں کائنات کے حقائق چند حال سے باهر نهیں هیں؛ یا وه سب کے سب حقیقت واحده کے افراد هیں، نوع واحد کی طرح؛ یا مختلف انواع والے هیں جو جنس میں مشترک هیں جیسا که تمام حیوانات حیوانیت میں مشترک هیں؛ یا پھر ان میں کوئی اشتراک نهیں هے اور متبائن بتمام ذات هیں۔ اور یهی تیسری قسم فلاسفه مشاء کے پیش نظر هے اور باقی دو قسمیں باطل هیں۔
پهلی قسم کا بطلان: اس نظریه کا لازمه یه هے که وجود ایک کلی طبیعی کی طرح هو جو تشخص قائم کرنے والے عوارض آنے کے سبب مختلف افراد کی شکل اختیار کرلیتا هے۔ لیکن عوارض کے بارے میں پھر وهی سوال هوگا که وه بھی موجود هیں اور جب تمام موجودات حقیقت واحده رکھتے هیں تو ایک طرف عوارض و معروضات میں اور دوسری طرف خود عوارض کے درمیان اختلاف کیوں پیش آرها هے اور ان کے اختلاف سے وجود کے متعدد افراد پیدا هورهے هیں؟
دوسرے الفاظ میں ان کا نظریه یه هے که اگر عینی وجودوں میں اشتراک کو مان لیا جائے تو یه اشتراک مکمل ذات میں هوگا اور اس کا مطلب یه هے که وجود ایک نوعی اور متعدد افراد والی ماهیت هے یا اشتراک صرف جزء ذات میں هے اور اس کا لازمه یه هے که وجود ایک جنسی ماهیت هے اور اس کی مختلف انواع هیں اور یه دونوں هی فرضیں باطل هیں۔
دوسری قسم کا بطلان: چونکه اس قول کا لازمه یه هے که وجود کی حقیقت، امتیاز و اشتراک سے مرکب هے، یعنی جنس و فصل سے مرکب هے اور یه وجود کے بسیط هونے سے سازگار نهیں هے۔
لهذا فلاسفه مشاء کی نظر میں اس کے علاوه کوئی راسته نهیں ره جاتا که عینی وجود (حقائق کائنات) متبائن بتمام ذات هیں۔
حکمت معالیه میں وجود و هستی
وجود کے بارے میں حکمت متعالیه کے فلاسفه کا خیال هے که تمام حقائق عینی سے ایک مفهوم یعنی وجود کا مفهوم ﺳﻣﺟﻬ میں آتا هے اور مختلف حقائق سے اس واحد مفهوم کا سمجھا جانا یه بتاتا هے که ان کے درمیان ما به الاشتراک عینی پایا جاتا هے جو که اس مفهوم واحد کے سمجھے جانے کا سبب هے اور اگر خاری وجودوں کے درمیان وحدت کی جهت نه هوتی تو ان سے مفهوم واحد نه سمجھا جاتا۔ دوسری طرف ان کی نظر کے مطابق تمام حقائق کائنات کے درمیان علت و معلول کا رابطه پایا جاتا هے اور کوئی بھی وجود، علل و معلولات کے سلسله سے کٹا هوا نهیں هے۔ لهذا وجود بخشنے والے علل اور اپنے سوا هر وجود کو وجود عطا کرنے والی ذات خداوندی کی به نسبت، تمام معلولات کا وجود در حقیقت وابستگی اور رابطه کے سوا ﮐﭼﻬ بھی نهیں هے اور تمام مخلوقات وجود الهی کا جلوه هیں که جو اپنے اپنے درجه کے لحاظ سے شدت و ضعف اور تقدم و تأخر سے دوچار هیں۔
اس طرح پوری کائنات هی عینی وجودوں کے ایک سلسله سے عبارت هے که جس کی هر کڑی اپنے اوپر کی کڑی پرٹکی هے اور درجه وجود کے اعتبار سے هر کڑی اپنے اوپر کی کڑی سے محدود اور ضعیف هے۔ وجود اقدس الهی کے سوا تمام موجود سے استقلال کی نفی کرنے والا یه وجودی رابطه اس خاص وحدت کے معنی میں هے جو وجود عینی میں اور فطرتا اصالت وجود کی بنیاد پر متصور هے۔
خلاصه یه که [عین کثرت میں وحدت] کے نام سے مشهور هونے والا یه نظریه کهتا هے که وجود کے حقائق عینی، باهمی وحدت و اشتراک بھی رکھتے هیں اور اختلاف و امتیاز بھی۔ لیکن ان کا مابه الاشتراک اور ما به الامتیاز ایسا نهیں هے که وجود عینی کی ذات میں ترکیب کا باعث بنے یا ان کو جنس یا فصل کے طور پر قابل تحلیل بنادے، بلکه ان کے ما به الامتیاز کی بازگشت، شدت و ضعف کی طرف هے، جیساکه شدید و ضعیف نور کا اختلاف ان کی شدت و ضعف کی بنیاد پر هے۔ لیکن اس طرح نهیں که نور شدید کی شدت میں یا نور ضعیف کے ضعف میں نور کے سوا کوئی اور چیز هے۔ بلکه نور شدید خود نور کے سوا ﮐﭼﻬ نهیں اور نور ضعیف بھی نور کے علاوه ﮐﭼﻬ نهیں۔ اس کے باوجود شدت و ضعف میں ایک دوسرے سے مختلف هیں۔ لیکن یه ایسا اختلاف هے جو ان کے درمیان مشترکه حقیقت نور کی بساطت کو نقصان نهیں پهنچاتا۔ بالفاظ دیگر عینی وجود آپس میں تشکیکی اختلاف کا شکار هیں اور ان کے ما به الامتیاز کی بازگشت ان کے ما به الاشتراک کی طرف هے۔[2]