Please Wait
14830
توحید اور نفی شرک کے بعد قرآن میں جس سب سے بڑے واجب کا حکم دیا گیا هے وه والدین کا اکرام و احترام هے۔ ایسے مواقع جهاں یه دونوں الگ الگ حکم دیں اور دونوں کو بجا لانا ممکن نه هو تو در حقیقت دو طرح کی روایات همارے سامنے هیں۔ بعض روایات میں ماں کے ساتھ نیکی کو مقدم شمار کیا گیا هے لیکن بعض میں آیا هے که اولاد کے اوپر باپ کا حق، بالاتر هے۔ ظاهرا ان رویات کو اس صورت میں جمع کیا جاسکتا هے که: جهاں باپ کے لئے کوئی ولایت ثابت هے مثلا باکره بیٹی کی شادی وغیره تو یهاں پر صاحب ولایت کی بات مقدم هے اور جهاں ایسا نهیں هے وهاں ماں کا حکم مقدم هے۔
قرآن کریم میں الله نے انسان کو شرک سے روکنے کے بعد والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی سفارش کی هے۔ علامه طباطبائی فرماتے هیں: والدین کے ساتھ نیکی کرنا توحید کے بعد بزرگ ترین واجبات میں سے ایک هے[1] اور اس احسان و احترام میں کافر و مومن والدین کے درمیان کوئی فرق نهیں هے کیونکه قرآن نے اطلاق کے ساتھ (بغیر کسی شرط کے) فرمایا هے که والدین کے ساتھ نیکی کرو۔[2]
آپ کے سوال کا جواب یوں هے:
الف: کبھی والدین مل کر اولاد کوایسے کام کا حکم دیتے هیں جو خلاف شریعت هے ایسی صورت میں ان کی اطاعت واجب نهیں هے۔
اس سلسله میں قرآن کا فرمان هے: هم نے انسان کو وصیت کی که وه والدین کے ساتھ نیکی کرے اور اگر وه دونوں (مشرک هوں) اور کوشش کریں که تم میرا شریک مانو جس کے بارے میں تمهیں علم بھی نهیں هے تو ان کی پیروی نه کرو![3]
حضرت علی علیه السلام فرماتے هیں: خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت قابل قبول نهیں هے۔[4]
یا: باپ کا حق یه هے که معصیت کے سوا هر جگه اولاد اس کی اطاعت کرے۔[5]
امام رضا علیه السلام اس سلسله میں فرماتے هیں: والدین کے ساﭠﮭ نیکی واجب هے اگرچه وه مشرک هوں لیکن اگر الله کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت واجب نهیں هے۔[6]
لیکن اس کےعلاوه یعنی مستحبات، مکروهات اور مباحات میں ان کی اطاعت لازم هے۔ لهذا فقها فرماتے هیں:
۱۔ اگر والدین اپنی اولاد کو مستحبی روزے سے منع کریں تو احتیاط واجب یه هے که روزه نه رکھے۔ اسی طرح اگر مستحبی روزه والدین کی اذیت کا سبب بنے تو چھوڑنا ضروری هے اور اگر رﮐﮭ لیا هو تو افطار کرلے۔[7]
۲۔ اگر والدین اپنی اولاد کو حکم دیں که نماز کو جماعت کے ساﭠﮭ پڑھے تو کیونکه والدین کی اطاعت واجب هے لهذا احتیاط واجب کی بنیاد پر نماز کو باجماعت پڑھے اور مستحب کی نیت کرے۔[8]
۳۔ نماز اول وقت مستحب هے لیکن اگر والدین اولاد کو کسی مستحب یا مباح کام کا حکم دیں تو ان کی اطاعت، نماز اول وقت پر مقدم هے۔[9]
ب: کبھی ایسا هوتا هے که والدین میں سے ایک شریعت کے موافق کام کا حکم دیتا هے اور دوسرا الله کی معصیت کا حکم دیتا هے ایسی صورت میں یقینی طور سے اس کے حکم کی پیروی کرنا چاهئے جس کا حکم شریعت کے موافق هے۔
د: کبھی والدین انسان کو مباح کام کا تقاضا کرتے هیں لیکن ان میں سے ایک کسی کام کو چاهتا هے اور دوسرا اسے چھوڑنے کو کهتا هے۔
ایسی صورت میں: اگر اسلام میں باپ کی ولایت ثابت هو مثلا باکره بیٹی کی شادی وغیره که اس میں باپ کو ولایت حاصل هے تو ظاهر هے که صاحب ولایت کی بات مقدم هے[10]، لیکن جهاں ان میں سے کسی کے لئے ولایت ثابت نهیں هے، ایک طرف پیغمبر اسلام صلّی الله علیه وآله سے نقل هوا هے که ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کی که میں کس کے ساﭠﮭ نیکی کروں؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساﭠﮭ ۔ اس نے دوباره پوچھا آپ نے دوباره کها اپنی ماں کے ساﭠﮭ، اس نے تیسری بار دریافت کیا پھر بھی آپ نے کها: اپنی ماں کے ساﭠﮭ ۔ جب چوتھی بار پوچھا تو آپ نے کها: اپنے باپ کے ساﭠﮭ ۔[11]
دوسری طرف ﮐﭼﮭ روایات میں آیا هے که:
پیغمبر صلّی الله علیه وآله سے پوچھا گیا که انسان کے اوپر سب سے بڑا حق کس کا هے؟ آپ نے فرمایا: اس کے اوپر باپ کا حق هے۔[12] یا ایک روایت میں هے که آپ نے فرمایا: تو اور تیرا مال جس کا تو مالک هے وه سب تیرے باپ کا هے۔[13]
ان روایات کا مطلب کیا هے؟ اور ان باتوں کو کیسے جمع کیا جاسکتا هے اس سلسله میں یه کهنا بهتر هے که: گناه کے حکم اور واجبات کے ترک کے علاوه والدین کی اطاعت کا واجب هونا[14] فی الجمله اجماعی هے اور دینی متون سے یه سمجھا جاسکتا هے که ایسے موارد میں اولاد کو چاهئے که ماں کے حق کی زیاده رعایت کرے۔[15]
اس کے دلائل مندرجه ذیل هیں:
۱۔ جیساکه بیان هوا که رسول الله نے تین بار ماں کے ساﭠﮭ نیکی کرنے کا حکم دیا اور پھر چوتھی بار باپ کے ساﭠﮭ خیر و نیکی کا حکم دیا۔
۲۔ گذشته روایت میں اگرچه باپ کے حق کو سب سے بڑا حق بتایا گیا هے لیکن دیگر روایات سے یه ﺳﻤﺟﮭ میں آتا هے که ماں کاحق بڑا هے۔ مثلا آپ سے پوچھا گیا که باپ کا حق کیا هے آپ نے فرمایا که جب تک زنده هے اس کی اطاعت کرنا۔ پوچھا ماں کا حق کیا هے؟ فرمایا: هیهات، هیهات اگر بیابان کے ریت کے ذروں اور بارش کے قطروں کے برابر بھی ماں کی خدمت میں حاضر رهو تو اس ایک دن کے بھی برابر نهیں هوسکتا جب تم اس کے شکم میں تھے۔[16]
۳۔ ماں کا مزاج نازک هے اور ایسا مزاج زیاده محبت کا متقاضی هے اور ایسے موقعوں پر ماں کی بات کو ترجیح دینا فطرت کے تقاضوں کے مطابق هے۔
بهر حال جس بات سے غافل نهیں هونا چاهئے وه یه هے که اولاد کو ایسے موقعوں پر چاهئے که جتنا ممکن هو ماں کی اطاعت کا ایسا طریقه اختیار کرے که باپ اذیت و پریشانی کا باعث نه بنے۔
[1] طباطبائی، محمد حسین، (ترجمه) المیزان، ج ۱۳،آیه ۱۴و۲۳ اسراء
[2] انعام،۱۵۱، اسی طرح امام باقر ععع سے ایک روایت میں وارد هوا هے که والدین کے ساﭠﮭ نیکی کرو چاهے وه اچھے هوں یا برے، بحار الا نوار، ج۷۱، ص ۵۶، چاپ وفا، بیروت۔
[3] عنکبوت، ۸؛لقمان، ۱۵، اسی میں آگے بڑھ کر یوں هے که: لیکن ان دونوں کے ساﭠﮭ دنیا میں اچھے طریقه سے پیش آؤ۔
[4] "لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق "؛نھج البلاغه، قصار الحکم، ش۱۶۵۔
[5] "اِنَّ لِلَّوالِدِ حَقّاً۔۔۔ فَحَقُّ الوالِدِ اَن یُطیعَهُ فی کُلِّ شَیءٍ اِلّا فی مَعصِیَۃِ اللهِ"، نھج البلاغه، کلمات قصار، ش ۳۳۹۔
[6] مجلسی،بحارالانوار، ج۷۱، ص ۷۲۔
[7] توضیح المسائل (المحشی للامام الخمینی)، ج۱، ص ۹۶۶ مسئله ۱۷۴۱۔
[8] توضیح المسائل (المحشی للامام الخمینی)، ج۱، ص ۷۶۹ مسئله ۱۴۰۶۔
[9] شهید نے قواعد میں فرمایا هے که اس میں شک نهیں که جو چیز غیروں کے لئے واجب یا حرام هے وه والدین کی بنسبت واجب هے اور والدین میں کچھ خصوصیتیں هیں جو اس طرح هیں:
۱۔ والدین کی اجزت کے بغیر جائز یا مستحب سفر حرام هے۔
۲۔ والدین کی اطاعت هر حال میں واجب هے حتی شبهه کے موقع پر بھی کیونکه شبهه کو ترک کرنا مستحب هے لیکن ان کی اطاعت واجب هے۔
۳۔ اگر والدین آواز دیں اور اول وقت نماز هو تو نماز تاخیر کرکے ان کی بات سنو۔
۴۔ اگر جماعت میں جانے سے منع کریں، تو اقرب یه هے که ان کا حکم سننا لازم نه هو لیکن اگر والدین کے لئے گراں گزرے مثلا رات کو اندھیرے میں نماز عشاء یا نماز صبح۔
۵۔ اگر جهاد واجب تعیینی نه هو بلکه کفائی هو تو والیدن اس کو جهاد سے روک سکتے هیں۔
۶۔ اگر نافله مں مشغول هو اور والدین اسے آواز دیں تو نماز توڑکر جواب دینا ضروری هے۔
۷۔ اگر والدین اجازت نه دیں تو اولاد مستحب روزه نهیں رکھ سکتی، یه سب توان و قدرت کی حد میں هے۔ دیکھئے: القواعد والفوائد۔ ج۲، ص۴۷ تا ۴۹
[10] دیکھئے: ،وسائل شیعه،چاپ اسلامیه۔ ج ۱۴، ص ۱۱۔۱۲۰ ۔
[11] مجلسی، بحارالانوار، ج ۷۱، باب حقوق والدین؛ کافی، ج ۲،۱۵۹،۱۵۹۔
[12] شیخ حرعاملی، وسائل الشیعه، چاپ اسلامیه۔ ج ۱۴،ص ۱۱۲، ح ۲۵۳۰۰۰،"مَن أعظَمُ النَّاسِ حَقّاً عَلَی الرَّجُلِ قَالَ وَالَدُه"۔
[13] صدوق، معانی الخبار، ج ۱،ص۲۵۷، چاپ جامعۃ مدرسین۔
[14] البته اس سلسله میں فقهاء نے بحث کی هے کهوالدین کی اطاعت کرنا واجب هے یا ان کو پریشان کرنا حرام هے۔ بعض نے کها هے که اطاعت واجب نهیں هے لیکن اذیت پهنچانا حرام هے یه لوگ کهتے هیں که جس کام سے والدین کو اذیت پهنچتی هو اور اولاد پر واجب بھی نه هو اسے انجام نهیں دینا چاهئے یا والیدن سے اسے چھپائے رکھے یا نھیں راضی کرے لیکن ان کی اطاعت والدین کی اطاعت کے عنوان سے واجب نهیں هے (بلکه انھیں اذیت پهنچانا حرام هے) تبریزی، جواد، استفتائات جدید، مسئله ۲۲۳۰، چاپ اوّل انتشارات سرور؛ فاجل محمد، جامع المسائل، ج ۱، مسئله ۲۱۸۸؛ امام خمینی، توضیح المسائل مراجع،ج۲،مسائل متفرقه، مسئله ۸۵، چاپ اوّل ، انتشارات اسلامی، ص۶۷۵۔
[15] دیکھئے: مرحوم قمی نے جامع الشتات فی اجویۃ السوالات، ج۱، ص۲۴۱ میں فرمایا هے که جب ماں اور باپ کی رضا حاصل کرنے کے لئے پس و پیش میں پڑ جائے اور دونوں کی رضا ممکن نه هو تو بعید نهیں هے که باپ کی رضا پر ماں کی رضا کو مقدم کرے۔
[16] [قِیل یا رسول الله ما حق الولد قال ان تطیعه ما عاش فقیل ما حق الولد فقال ھیھات ھیھات لو انه عدد رمل عالج و قطر المطر ایام الدنیا قام بین یدیھا ما عدل ذلک یوم حملته فی بطنھا]، مستدرک الوسائل ،ج ۱۵، ص ۲۰۴، روایت ۱۸۰۱۴ ۔ ۱۹ ۔