اعلی درجے کی تلاش
کا
11462
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2009/01/19
 
سائٹ کے کوڈ fa765 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 3993
سوال کا خلاصہ
قمری سال کے آغاز کو کیوں محرم سے شمارجاتا هے جبکه اس مهینه کی دس تاریخ کو امام حسین علیه السلام کی شهادت واقع هوئی هے؟
سوال
اس بات کے پیش نظر که ماه محرم ، قمری سال کا پهلا مهینه هے اور حضرت امام حسین علیه السلام کی شهادت اسی مهینه میں واقع هوئی هے ، قمری سال کو کیوں اسی مهینه سے شروع کیاگیا هے؟
ایک مختصر

قمری سال کےماه محرم سے شروع هو نے کا امام حسین علیه السلام کی شهادت کے ساتھـ کوئی تعلق  نهیں هے –قمری سال کا آغاز اسلام سے پهلے بھی محرم سے هی هوتا تھا اور جهالت کے زمانه کے عرب قمری سال کے آغاز کو محرم کے مهینه سے جانتے تھے-

لیکن جاننا چاهئے که عرب، ایرانیوں کے مانند سال کے آغاز کو جشن وسرود سے شروع نهیں کرتے هیں – یه مسئله ان کے لئے ایک عادی مسئله هے اور سال کے دوسرے ایام کے مانند اس دن کو بھی کوئی خاص اهمیت نهیں دیتے هیں – دوسرے الفاظ میں سال کا تبدیل هو نا ان کے لئے کسی خاص قسم کی اهمیت اور قدر و منزلت کا حامل نهیں هے- لیکن بنی امیه نے عاشور کے دن کو عید کے طور پر انتخاب کیا هے ، که اس مسئله کا سال کے آغاز سے کوئی ربط نهیں هے اور اگر وه امام حسین علیه السلام کو کسی اور دن شهید کر تے تو بعید نهیں هے که اسی دن کو اپنے لئے عید اور خوشی کا دن اعلان کرتے-

تفصیلی جوابات

قمری سال کا اغاز بهت هی قدیم زمانه ، یعنی اسلام سے پهلے ، محرم کے مهینه میں هوتاتھا اور اس کا اسلام و مسلمانوں سے کوئی ربط نهیں هے – واضح الفاظ میں ، جب نیا دین( اسلام ) جزیرۃ العرب پر حاکم هوا، سال کے آغاز کے بارے میں جو کلنڈر عربستان کی سر زمین پر عربوں میں رائج تھا ، اسلام نے اسی کو قبول کیا –[1]

دین مقدس اسلام نے جو تبدیلی کلنڈر میں ایجاد کی وه صرف یه تھی که سنه عام الفیل کو رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے مکه سے مدینه هجرت کر نے کی تاریخ میں تبدیل کر کے سنه هجری قرار دیا[2]-

مسعودی نے اس سلسله میں لکها هے :" عرب سال کے پهلے مهینه کو ربیع جانتے تھے اور ربیع کا اول وقت بھی ماه ایلول کے گزرنے کے تین دن بعد بارش برسنے کے ساتھـ هوتا تھا، اور اول صیف بھی ماه ربیع الثانی تھا که اس کا وقت ، ماه آذار سے پانچ دن گزرنے کے بعد (اوائل بهار) تھا[3]- "

لیکن شمسی مهینه خواه قبل از اسلام یا بعد از اسلام عربوں میں بهت کم رائج تھا ، که کها جاتا هے که صرف تجارت و زراعت کے لئے مجبوراً اس سے استفاده کرتے تھے[4]-

اس لحاظ سے عربوں میں قمری سال کے ماه محرم میں تبدیل هو نا بهت قدیم زمانه سےتھا اور جب امام حسین علیه السلام اس مهینه میں شهید کئےگئے تو قدرتی طور پر کوئی بھی شخص سال کے پهلے مهینه کو بدل کر کسی دوسرے مهینه میں منتقل نهیں کرسکتا تھا- اس کے علاوه عربوں میں ایرانیوں کے مانند یه مرسوم نهیں تھا که تحویل سال کے موقع پر جشن و عید منائیں ، یعنی ان میں سال کا آغاز بالکل عادی صورت میں هوتاتھا اس دن کسی قسم کی تقریبات منعقد نهیں هوتی تھیں-

البته جومسئله زیر بحث هے وه یه هے که بنی امیه نے امام حسین علیه السلام کی شهادت کے بعد عاشور کو اپنے لئے عید کا دن منایا اور اس دن جشن مناتے تھے اور اس دن کی تعظیم اور شادی منانے کے سلسله میں بهت سی روایتوں کو جعل کیا که افسوس که بهت سے مسلمان ان سے متاثر هو کر اس دن کو خیر وبر کت کا دن جانتے هیں اور شادی بیاه کی تقریبات کواسی دن منعقد کرتے هیں [5]

اس سلسله میں زکریا قزوینی نے لکها هے :" بنی امیه کا یه اعتقاد تھا که عاشور ا کے دن عید منائیں ، اس لئے چونکه اس دن شیعه عزادری کے طور پر ماتم اور نوحه خوانی کرتے تھے اور زینت کر نے سے اجتناب کرتے تھے ، اس لئے اموی اس دن سجاوٹ کر کے اور مهمان نوازی کی مجلسیں منعقد کر کے جشن مناتے تهے[6]-

زرندی حنفی بھی لکھتے هیں :" اس مهینه (صفر) کا پهلا دن بنی امیه کی عید هے ، کیونکه اس دن حسین (رضی الله عنه) کا سر دمشق میں پهنچا هے[7]-

البته اس مسئله کا سال کے پهلے مهینه سے کوئی ربط نهیں هے اور اگر وه امام حسین علیه السلام کو کسی اور دن بھی شهید کرتے ، بعید نهیں هے که اسی دن کو عید اور شادمانی کا دن اعلان کر تے -



[1] - جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام ، قم، منشورات شریف رضی ،چاپ اول ،ج٨،ص٤٦٠-

[2] - ایضاً -

[3] - مسعودی ، معروج الذهب ،ج٢، ص١٩٢ ،به نقل از جواد علی ،المفصل فی تاریخ العرب ،ج٨،ص٤٤١-

[4] - المفصل فی تاریخ العرب ، ج٨،ص٤٤٦-

[5] - مزید معلو مات کے لئے مندرجه ذیل کتابوں کا مطالعه کیا جاسکتا هے: بیرونی مکه ، ابو ریحان ،آثار الباقیه ،طبع اروپا،ص٣٢٩،آدم متز، الحضارۃ الاسلامیۃ فی القران الرابع الهجری ،بیروت ١٣٨٧ه ق، ج ١،ص١٣٧، شیخ عباس قمی ، الکنی والالقاب ، نجف اشرف، ١٣٩٠ ه ق،ج١،ص٤٣١- ابن حجر هیثمی ،الصواعق المحرقۃ ،مصر،ص١٨١- ابن تیمیه ،اقتضاء الصرط المستقیم ،ریاض ، مکتبۃ الریاض الحدیثۃ ،ص٣٠١- مقریزی ،الخطط والاثار ،مصر، تاریخ نشر ١٢٧٠،ه - ق ،ج١،ص٤٩٠-

[6] - قزوینی ،زکریا، عجائب المخلوقات ،بیروت، دار القاموس الحدیث، ج١، ص١١٥-

[7] - زرندی حنفی ،نظم دردالسمطین ،تهران، کتابخانه نینوا، ص٢٣٠; عاملی، سید جعفر مرتضی ، بزرگداشت ها دراسلام ، ترجمه محمد سپهری ،قم،دفتر تبلیغات ، چاپ سوم ،ص٤٧-

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا