Please Wait
11217
- سیکنڈ اور
اھل بیت )ع( سے منقول روایات کی بناء پر نماز میں”آمین" کہنا جائز نہیں ہے اور "آمین" کہنے سے نماز باطل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جایز نہ ہونے کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نماز ایک عبادی امر ہے یعنی اپنی طرف سے نماز میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی چیز کا جایز ہونا شرعی عنوان سے ثابت نہ ہو ، تو یہ خود عدم جواز کے لیے بہترین دلیل ہے، اور نماز میں اصل ، کسی چیز کے زیادہ نہ ہونے پر ہے۔ اور احتیاط بھی اس چیز کی متقاضی ہے کہ نماز گزار کوئی ایسا عمل انجام نہ دے. کیونکہ جب وہ آمین کہے گا تو اسے بری الذمہ ہونے پر یقین نہیں ہوگا برخلاف اس صورت کے جب وہ آمین نہ کہے گا۔
شیعہ اور اھل سنت کے درمیان مورد اختلاف مسائل میں سے ایک مسئلہ سورہ حمد کے بعد "آمین" کہنا ہے، ہم یہاں پر آمین پڑھنے کو جایز جاننے والوں کے نظریات سے آگاھی حاصل کرنے کے لیے ان کی دلیلوں کو ذکر کرکے نقد و نظر سے گزاریں گے اس کے علاوہ اس باب کی روایات کو نقل کرکے پیغمبر اکرم )ص( کی نماز کی طرف بھی اشارہ کریں گے ۔ آخر میں شیعہ امامیہ کے نظریہ کو ذکر کریں گے۔
چونکہ نماز میں "آمین" کہنے کے بارے میں اختلاف ہے اور نماز عبادات میں سے ہے یھاں پر کچھ نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:
الف: شریعت اسلامی میں عبادات چاھے واجب ہوں یا مستحب توقیفی اور محدود ہیں ، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا انجام دینا کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے اسی طرح ثابت ہے جس طرح وہ شریعت اور دین سے ہم تک پہنچی ہیں ، یعنی ہمیں کسی بھی طرح ان کو کم یا زیادہ کرنے کا اختیار نہیں ہے اور ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ ہر کوئی اپنی نظر اور چاھت کے مطابق اس کی کیفیت کو بگاڑ دے ، یہ حکم صرف نماز کیلئے مخصوص نہیں ہے بلکہ باقی عبادات جیسے روزہ ، وضو، تیمم، اور ماثورہ ادعیہ[1] وغیر میں بھی ثابت ہے۔[2]
ب: مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ " آمین" کہنا نماز کا جزء نہیں ہے۔[3] اس لئے جو لوگ نماز میں آمین کہنَے کو مشروع اور جائز جانتے ہیں انہیں ثابت کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ نماز میں اصل "آمین" کہنے کا عدم جواز ہے ، اور اسے ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے ، ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس کا کہنا حرام ، بدعت اور نماز کے بطلان کا سبب ہے۔
نماز میں "آمین" کو بیان کرنے والی روایات دو طرح کی ہیں:
۱۔ وہ روایات جن کی سند کے سلسلہ میں ابو ھریرہ موجود ہے جیسے مندرجہ ذیل روایت:
پیغمبر اکرم )ص( سے منقول ہے کہ فرمایا: جب امام جماعت نے " و لاالضالین" کہا آپ "آمین" کہو ، کیونکہ ملائکہ آمین کہتے ہین ، پس جس کا آمین بھی فرشتوں کے آمین سے مل جائے اس کے سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔[4]
اس طرح کی روایات جن کی سلسلہ سند میں ابو ھریرہ موجود ہے ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔[5]
حضرت علی )ع( اس کے بارے میں فرماتے ہیں: "الا ان اکذب الناس او قال : اکذب الاحیاءعلی رسول اللہ ابو ھریرہ الدئسی " لوگوں میں پیغمبر اکرم )ص( کی نسبت زیادہ جھوٹ باندھنے والا آدمی )زندوں میں سب سے بڑا جھوٹا( ابو ھریرہ ہے -[6]
۲۔ وہ احادیث جن کے راوی یہ ہیں : حمید بن عبد الرحمن بن ابی لیلی، ابن عدی ، عبد الجبار بن وائل، سھیل بن ابی صالح ، علاء بن عبد الرحمن ، طلحہ بن عمرو، ان میں سے کسی کی بھی روایت قبول کرنے کے شرائط موجود نہیں ہیں، کیونکہ حمید بن عبد الرحمن بن ابی لیلی کا حافظہ صحیح نہیں تھا ، اور وہ ضعیف ہے ابن عدی بھی مجہول ہے، عبد الجبار بن وائل اپنے باپ سے نقل نہیں کرسکتا ہے کیونکہ اس نے باپ کے مرنے کے چھ مہینے بعد ولادت پائی، اس لحاظ سے اس کی روایت منقطع ہے۔
سھیل بن ابی صالح اور علاء بن عبد الرحمن کے بارے میں ابو حاتم کہتا ہے ان کی حدیثیں لکھی جاتی ہیں لیکن حجیت نہیں رکھتی ہیں اور طلحہ بن عمرو متروک اور اس کی احادیث ضعیف ہیں۔[7]
یہ ضعیف اور غیر موثق افراد جو ان احادیث کی سند میں موجود ہیں۔ اسی وجہ سے ان احادیث پر اعتماد اور عمل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
بعض لوگوں نے نماز میں "آمین" کہنے کی یہ دلیل پیش کی ہے کہ آمین کو اس لئے کہا جاتا ہے کہ "اھدنا الصراط المستقیم " ایک دعا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جملہ دعا کے قصد کرنے سے دعا بن جاتا ہے جبکہ قاری کا قصد تلاوت قرآن ہے نہ کہ دعا اور اگر ہر دعا کے پڑھنے کے ساتھ جیسے " ربنا اغفر لنا و قنا عذاب النار کے ساتھ دعا کا قصد کیا جاتا، تو ہر دعا کے بعد آمین کہنا جایز ہوتا، جبکہ کوئی بھی اس مسئلہ کا قائل نہیں ہے[8]-
اس کے علاوہ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے نماز ان عبادات میں سے ہے جو توقیفی ہے اور فرضا اگر اس کی قرائت میں دعا کا قصد کیا جائے پھر بھی آمین کہنا جایز نہیں ہے کیونکہ بنیادی طورپر عبادی امور ) جو توقیفی ہیں( میں کم یا زیادہ کرنا شرعی جواز کے بغیر بدعت و حرام ہے، کیونکہ بے شک آمین کا کلمہ نہ قرآن کا جزء ہے اور نہ کوئی مستقل تسبیح یا دعا ہے اس بناء پر یہ باقی کلمات کے مانند ہے جو قرآن اور تسبیح کے دائرے سے خارج ہیں۔
پیغمبر اکرم )ص( کا یہ قول کہ: "جایز نہیں ہے کہ نماز میں انسانوں کی باتوں کو جوڑا جائے"[9] ہمیں اس کام سے منع کرتا ہے کیونکہ بے شک یہ انسان کی بات ہے نہ کہ خداوند متعال کی ، اگر کوئی یہ ادعا کرے کہ آمین کہنا خدا کے اسماء میں سے ہے تو ہم یہ کہیں گے اگر ایسا ہے تو اسے خداوند متعال کے اسماء میں موجود ہونا چاھیئے اور ہم خدا کو "یاآمین" کے نام سے پکار سکتے ہوں، جب کہ کسی نے یہ بات نہیں کہی ہے کہ آمین اسماء الہیہ میں سے ہے۔[10]
پیغمبر اکرم )ص( کی نماز
بے شک مسلمانوں کے درمیان احکام کا ایک منبع آنحضرت )ص( کی سنت )قول ، فعل اور تقریر( ہے ، اسی لئے اگر کسی ایسے طریقے سے جو سب کے لیے قابل قبول ہو ، پیغمبر کی سنت "آمین" کے کہنے یا نہ کہنے کو ثابت کرے تو وہ ہمارے اوپر حجت ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا چاھیئِے۔
اھل سنت کے دانشوروں ، راویوں اور محدثوں نے اپنی سنن اور صحاح میں آنحضرت[ص] کی نماز کو نقل کیا ہے جسے ہم عینا یہاں پر نقل کرتے ہیں:
محمد بن عمر بن عطا کہتا ہے، کہ میں نے ابو حمید ساعدی کو، جو ان دس اصحاب میں شامل تھا جن کے درمیان ابو قتادہ بھی موجود ہے، فرماتے ہوے سنا ہے : کیا میں تم میں یہ اعلان کروں کہ آنحضرت )ص( کی نماز کیسی تھی؟ اصحاب نے کہا: کیسی تھی، جب کہ نہ تم نے ہم سے زیادہ آنحضرت )ص( کی پیروی کی اور نہ ھم سے پہلے صحابی ہونے کا شرف پایا ، اس نے کہا: بالکل ایسا ہی ہے ، تو کہا: آنحضرت )ص( نماز کے وقت اپنے دو ہاتھوں کو اپنے شانوں تک اٹھالیتے تھے اور تکبیر کہتے تھے، اس کے بعد رکوع کرتے تھے اور دو ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو اپنے زانو پر رکھتے تھے، پھر کھڑے ہوتے تھے پھر جبکہ فرماتے تھے سمع اللہ لمن حمدہ، رکوع سے سر اٹھا لیتے تھے پھر دونوں ہاتھوں کو شانوں کے برابر اوپر لے جاتے تھے اور جب مکمل طور پر کھڑے ہوتے تھے تو فرماتے تھے اللہ اکبر، پھر زمین کی جانب جا کر سجدہ کرتے تھے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے نزدیک رکھتے تھے پھر اپنے سر کو اٹھا کر بائیں پاوں پر بیٹھتے تھے، اور جب سجدہ کرتے تھے پاوں کی انگلیوں کو کھول کر رکھتے تھے پھر اللہ اکبر کہہ کر سر کو اوپر اٹھا تے تھے۔ پھر دوبارہ بائیں پاوں پر بیٹھتے تھے یہاں تک کہ آرام اور اطمینان حاصل کرتے تھے پھر اپنی دوسری رکعت کو اسی طرح بجا لاتے تھے، جب دو رکعتیں مکمل ہوتَی تھیں تو تکبیر کہتے تھے جبکہ ان کے دونوں ہاتھ شانوں کے مقابل میں ہوتے تھے بالکل ویسے ہی جیسے پہلی رکعت کی تکبیر بجالائی تھی، اسی طرح باقی نماز ادا کرتے تھے، اور آخری رکعت میں بائیں پاوں کو پیچھے رکھتے تھے اور اس پاوں پر بیٹھتے تھے ، اصحاب نے کہا تم نے سچ بولا آنحضرت ایسے ہی نماز بجا لاتے تھے۔ [11]
نکات
اس حدیث میں کچھ نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ اس بات کو مد نظر رکھ کر کہ حمید پیروی اور مصاحبت کے لحاظ سے باقی اصحاب پر کوئی فوقیت نہیں رکھتا تھا قدرتی طور پر اس کی بات سے باقی اصحاب حیرت میں پڑ گئے۔
۲۔چونکہ اس نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ایسی نماز پڑھ کر دکھانا چاھتا ہے جسے پیغمبر اکرم)ص( نے ادا کیا ہے، اس لئے اصحاب پیغمبر )ص( کے لیے ضروری تھا کہ اس نماز کو اور زیادہ توجہ کے ساتھ ملاحظہ کریں۔
۳۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس روایت میں نماز کے سب دقیق کاموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے
اس لحاظ سے ان نکات اور مقدمات کو مورد توجہ قرار دیکر ، نیز اس بات کو مد نظر رکھ کر شیعہ اور اھل سنت کے منابع میں نقل ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: "جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو بالکل ویسے ہی نماز ادا کرو"[12]
اگر ابو حمید آنحضرت )ص( کی نمازپر کوئی چیز کم یا زیادہ کرتا تو یقینا اصحاب چپ نہیں رہتے اور وہ اس کی اطلاع دیتے، پس جب ہم دیکھتے ہیں کہ ابو حمید نے آنحضرت )ص( کی نماز کی تشریح میں "آمین" نہیں کہا اور دیگر صحابہ کرام نے بھی اس کی یاد آوری نہیں کی اور اس کے بارے میں ذکر نہیں کیا، تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت اپنی نماز میں آمین نہیں کہتے تھے اور پیغمبر اکرم )ص( کا یہ عمل ہمارے لئے حجت اور دلیل ہے۔
اس کے علاوہ پیغمبر اکرم نے فرمایا: "حمد کی قرائت کے بعد آمین کہنا جایز نہیں ہے"۔ [13]
امام صادق )ع( نے فرمایا: "نماز جماعت میں جب امام سورہ حمد کی قرائت کرے تو آمین مت کہو"[14]
ان دلائل اور احادیث کے علاوہ مرحوم شیخ صدوق ایک روایت میں نقل کرتے ہیں، کہ نماز میں آمین کہنا عیسائیوں کے نعرے سے لیا گیا ہے۔ [15]
اس بنا پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نماز توقیفی عبادات میں سے ہے اورآمین نماز کا جز نہیں ہے اس لحاظ سے علماء امامیہ کے فتوی کے مطابق ، نماز میں سورہ حمد کی قرائت کے بعد آمین کہنا حرام ہےاور اس سے نماز باطل ہوتی ہے۔[16]
[1] یونس بن عبد الرحمن نے عبد اللہ بن سنان سے روایت کی ہے کہ حضرت امام صادق نے فرمایا: جلدی ہی تمہارے لئے ایک ایسا شبہہ پیش آئے گا کہ نہ تمہارِے پاس اس کے جواب دینے کا علم ہےاور نا ہی کوئی امام ہے جو تمہارے لئے اس شبہہ کو حل کرے ، تم حیرت میں رہوگے جو افراد ایسے شبھات سے رہائی ڈھونڈتے ہیں انہیں دعای غریق پڑھنا چاھیئے۔ میں نے عرض کی دعای غریق کونسی دعا ہے؟ تو فرمایا: یا اللہ یا رحمن یا رحیم ، یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک " میں نے عرض کیا " یا مقلب القلوب و الابصار ثبت قلبی علی دینک"فرمایا: خداوند مقلب قلوب و ابصار ہےلیکن جیسے کہ میں نے حکم دیا ہے ویسے ہی پڑھو اور کہو، "یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک" ) ابراھیم ، بن علی ، عاملی کفعمی ، البلد الامین ، طبع سنگی ص ۳۴ (
[2] اس سلسلے میں ملاحظہ ہو عنوان " الحمد للہ کا آمین کا کہنا" نمبر 17190 سایٹ نمبر ur16898 ۔
[3] محمد رشید رضا ، تفسیر القرآن الحکیم ، تفسیر المنار، ج ۱، ص ۳۹ ، ناشر دار المعرفۃ برای چاپ و نشر، بیروت، لبنان ، طبع دوم۔
[4] بیضاوی ، ناصر الدین ابو الخیر عبد اللہ بن عمر ، انوار التنزیل و اسرار التاویل ، ج ۱، ص ۳۲ ، دار احیاء الثراث العربی ، بیروت ، ۱۴۱۸ ھ
[5] ابو ھریرہ عبد الرحمن بن صخر ، دوسی ) ۲۲ھ، - ۵۹ ھ( جس سے آٹھ سو صحابی اور تابعین نے روایت نقل کہ ہے ، عمر نے اپنے خلافت کے دور میں اسے بحرین بھیجا ، لیکن اس کے ضعف اور کمزوری کی وجہ سے اسے کام سے الگ کیا، وہ اکثر مدینہ میں مقیم رہا ، تقی الدین سبکی نے "فتاوی ابی ھریرہ " کے عنوان ایک مختصر کتاب لکھی ہے اور عبد الحسین شرف الدین نے اس کی سیرت کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے، )الاعلا ۴/ ۸۰ – ۸۱ ( حجتی ، اسباب النزول ، ص ۲۱۶۔
[6] ملاحظہ ہو ، ابن ابی الحدید معتزلی، عز الدین ابو حامد، شرح نھج البلاغہ ، ج ۴ ص ۶۸ ، ناشر کتابخانہ عمومی آیۃ اللہ مرعشی نجفی ، سال ۱۳۳۷ ش ، طبع اول۔
[7] ملاحظہ ہو ، سلطانی ، عبد الامیر ، حکم التامین فی الصلاۃ ، ناشر مجمع جہاںی اھل بیت ، طبع دوم۔
[8] ملاحظہ ہو، سبزواری ، علی مومن قمی ، جامع الخلاف و الوفاق بین الامامیۃ و بین ائمۃ الحجاز و العراق، ناشر زمینہ سازان ظہور امام عصر)ع( ۱۴۲۱ ھ ، طبع اول ، قم۔
[9] اسفراینی، ابو المظفر شاھفور بن طاھر ، تاج التراجم فی تفسیر القرآن للاعاجم، مقدمہ، ص ۲۰ ناشر انتشارات علمی و فرھنگی ، تھران ، ۱۳۷۵ ش۔ طبع اول ، شھید ثانی، زین الدین علی بن احمد عاملی، روض الجنان فی شرح ارشاد الاذھان، ص ۳۳۱، موسسہ آل البیت )ع( طبع اول ، قم۔
[10] ابن شھر آشوب مازندرای ، محمد بن علی ، متشابۃ القرآن و مختلفہ، ج ۲، ص ۱۷۰ ، ناشر انتشارات بیدار، چاپ قم، سال ۱۴۱۰ھ طبع اول۔
[11] سنن ابی داود، باب افتتاح الصلاۃ ج ۲، ، ص ۳۹۱ ، ح ۶۲۷، موقع الاسلام، http:// www.al-islam.com ) المکتبۃ الشاملۃ ( سنن ابن مانہ باب اتمام الصلاۃ، ج ۳، ص ۳۵۵، موقع الاسلام، http:// www.al-islam.com ) المکتبۃ الشاملۃ( بیھقی ، سنن کبری ، ج ۲، ص ۷۲،سایٹ http:// www.al-islam.com ) المکتبۃ الشاملۃ( سنن دارمی ، باب صفۃ صلاۃ رسول اللہ ، ج ۴، ص ۱۶۵، موقع وزارۃ الاوقاف المصریۃ، http:// www. Islamic – council .com ) المکتبۃ الشاملۃ( ، صحیح ابن حبان ، باب صفۃ الصلاۃ ج ۸، ص ۲۴۲، ص ۱۶۵، موقع جامع الحدیث ، http:// www.alsunnah.com ) المکتبۃ الشاملۃ( ، مجلسی ، مھمد باقر ، بحار النوار ، ج ۸۲، ص ۲۷۹ ، طبع موسسہ الوفا بیروت ، لبنان ، سال ۱۴۰۴ ھ
[12] بیھقی ، السنن الکبری، ج ۲ ص۳۴۵،سنن الدار قطنی ، ج ۳، ص ۱۷۲ ، موقع وزارۃ الاوقاف المصریۃ، http:// www. Islamic – council .com ) المکتبۃ الشاملۃ( صحیح بن حبان ، ج ۱، ص ۳۱۴، مسند شافعی ، ج ۱ ص ۲۲۳۔ سایٹ http:// www.alsunnah.com ) المکتبۃ الشاملۃ(، مجلسی ، مھمد باقر ، بحار النوار ، ج ۸۲، ص ۲۷۹ ، طبع موسسہ الوفا بیروت ، لبنان ، سال ۱۴۰۴ ھ
[13] صدوق من لا یحضرہ الفقیہ ، ج ۱، ص ۳۹۰ ، انتشارات جامعۃ مدرسین ، قم سال ۱۴۱۳ھ۔
[14] کلینی الکافی، ج ۳، ص ۳۱۳، طبع دار الکتب الاسلامیۃ ، تھران، سال ۱۳۶۵ش، طوسی ، الاستبصار ج ۱، ص ۳۱۸، دار الکتب الاسلامیۃ تحران سال ۱۳۹۰ ھ، طوری ، تھذیب الاحکام ج ۲، ص ۷۴ ، چاپ دار الکتب الاسلامیۃ سال ۱۳۶۵ش۔
[15] صدوق ، مں لا یحضرہ الفقیہ ، ج ۱ ص ۳۹۰۔
[16] حلی ، حسن بن یوسف بن مطھر اسدی، تذکرۃ الفقھاء، )طبع جدید( ج ۳، ص ۱۶۲ ، موسسہ آل البیت )ع ( طبع اول ، قم ، ایران محقق و مصحح ، گروہ پژوھش موسسہ آل البیت علیھم السلام ، طوسی ، محمد بن حسن الخلاف ، ج ۱ س ۳۳۲، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم ۱۴۰۷، ق، طبع اول ، قم ، ایران، محقق/ مصحح ، ، شیخ علی خراسانی ، سید جواد شھرستانی ، شیخ مھدی طہ نجف،شیخ مجتبی عراقی۔