Please Wait
7178
حلول اور تناسخ کا مسئلہ جنت اور جہنم اور معاد سے انکار کرنے کے مترادف ہوںے کی وجہ سے دین اسلام میں باطل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ارواح کی حاضری، اور ان کے ساتھ ایک خاص رابطہ برقرار کرنا اگرچہ غیر شرعی عمل ہے لیکن یہ ممکن ہے۔
اسی طرح "دفاعی تابشوں " کو عمل میں لانا، ایک بیرونی عامل کے طور پر جس کا باطنی اصلاح اور ایسے مظاھر کو جڑ سے اکھاڑنے سے کوئی ربط نہیں ہے، حقیقت میں یہ ایک غلط طریقہ کار کے نتیجے اور اس کے انحرانی اثرات سے بھاگنے کا نام ہے۔
دین اسلام میں حلول اور تناسخ کا مسئلہ ، جنت و جہنم اور معاد سے انکار کے سبب،باطل جانا گیا ہے۔ [1]
لیکن روحوں کو حاضر کرنا اور ان سے رابطہ پیدا کرنا اگر چہ ایک غیر شرعی عمل ہے لیکن یہ ممکن ہے۔
بعض روحانی اور ذھنی مظاھر کا ظھور اور عرفان کے مدعی مکاتب کے ذریعے ان کا صحیح نہ سمجھنا تناسخ کے توھم کا سبب بن گیا ہے، انہوں نے یہ گمان کیا ہے کہ بعض ارواح دوسرے انسانوں کے وجود میں تناسخ کا سبب بنتی ہیں۔ یہ (حلول اور تناسخ) مطلب یا توھم خدائی روح اور انسانی ارواح اور جنات اور شیطان کے بارے میں پیدا ہوا ہے۔
عرفان میں جو تجلی اور ظہور، نیز روحوں کے ساتھ رابطے کی بحث پیش آتی ہے وہ تناسخ کے علاوہ کچھ اور ہےاور اس مختصرمقالہ میں اس بحث کی گنجائش نہیں ہے۔
تناسخ از این جہت کفر است و باطل [2]
کہ آن از تنگ چشمی گشت حاصل
(تناسخ اس لحاظ سے کفر اور باطل ہے کہ یہ کم نظری کی وجہ سے پیدا ہوا ہے)
تناسخ نبود این کز روی معنی
ظھورات است در عین تجلی[3]
[یہ تناسخ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کے تجلی کا ظاھر ہونا ہے۔]
ارواح، غیبی موجودات اور بہت سارے ذھنی اور روحانی مظاھر کے ساتھ رابطے کا ممکن ہونا اور ان سے حاصل شدہ اثرات جو لامحدود ہیں، ان کے بارے میں الگ طور پر تحقیق ہونی چاھئے ۔ لیکن جو بات مسلم ہے، وہ یہ ہے کہ ان مظاھر کے بارے عمدا بحث چھیڑنا اور اںہیں عرفان کا مقصد قرار دینا،بہت دور کی بات ہے، اور ان مسائل میں وارد ہونا اصلی مقصد سے منحرف ہونے کے ساتھ ساتھ ، آئے دن انسان کے روحانی اور ذھنی مشکلات کو بڑھانا ہے، خصوصا اس صورت میں کہ انسان ایک صالح اور عارف انسان کی راھنمائی سے محروم ہو۔
" دفاعی تابش" کی اصطلاح ، جو منفی موجوں کے اثرات کے مقابلے میں ایک حفاظتی ڈھال بنانے کا دعوی ہے اور عام طور پر ان امور کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے کسی شاگرد یا بیمار کو تجویز کی جاتی ہے۔ ان تابشوں کی حقیقت اکثر اوقات ان کے مدعی حضرات پر بھی پوشیدہ رہتی ہے اور عملی طور پر یہ ایک سپردہ اور تفویض شدہ عنوان (مقام) ہے جسے بعض افراد حاصل کرکے دوسروں کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ اس انتقال کے ذریعے – جسے غلط طور پر روح القدس یا نعوذ باللہ خدا کی جانب سے نسبت دی جاتی ہے — وہ اس چیز کے مدعی ہیں کہ اس سے منفی اور ناخواستہ ذھنی مظاھر دور ہوجاتے ہیں در حالیکہ ممکن ہے کہ انسان۔ دوبارہ اس سے بدتر مشکلات میں پھنس جائے۔
اس سلسلے میں کہ کیا بعض منفی روحانی اور ذھنی مظاھر سے مقابلہ کرنے کے لیے یہ چیز ممکن ہے کہ انسان دوسرے عوامل سے محفوظ رہے کہ نہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے کہ جو عرفان عملی میں روحانی مظاھر اور ان کے امکانی اثرات کے بارے میں مورد بحث قرار پاتی ہے لیکن یہاں پر دو نکتوں کی یاد آوری کرنا ضروری ہے :
پہلا نکتہ، یہ کہ ایک مکمل طریقت کے مطابق کوئی بھی مثبت یا منفی مظھر ، بغیر کسی دلیل کے موجود نہیں ہوتا اور اگر کوئی انسان کسی بھی وجہ سے من جملہ روحانی ادراک کے ذریعے کسی منفی مطلب یا بعض نقصانات کا سامنا کرتا ہے، بیشک اس کا انسان کے باطنی انحرافات کے ساتھ بلا واسطہ ربط ہے، اور اسی لئے علم عرفان کا اصلی مقصد یہ ہے کہ سالک کی اس وابستگی کو ختم کرے ۔ لھذا ایک کامل استاد سالک کے تزکیہ نفس سے اطمینان حاصل کرنے سے پہلے اور ان وابستگیوں سے رھائی حاصل کرنے سے پہلے سالک کو ایک ایسی روحانی مشق نہیں کرواتا ہے۔ کیوں کہ اس مشق سے نہ صرف سالک کو کوئی فایدہ نہیں پہنچتا ہے بلکہ کبھی وہ اس کی ذھنی بیماری کا سبب بھی بنتا ہے ، یا یہ چیز انسان کو اور بھی شدید باطنی انحرافات کی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہ مشکلات اس راہ میں پیش آتے ہیں کہ جن میں ایک ھم آھنگ ترقی ممکن نہیں ہے اور روح غیر طبیعی طور پر بلکہ ایک الٹے طریقہ کار میں اپنے نفس کی برائیوں سے آزاد ہوئے بغیر ایسے مافوق غیر ضروری تجارب کے ساتھ مقابلہ کرنے لگتا ہے کہ جس کی وجہ بھی اکثر اوقات شیطان ہی ہے۔
دوسرا نکتہ : یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی بھی دلیل سے ، ایسی مشکلات میں مبتلا ہوجاتا ہے ، اگر چہ ان مشکلات سے صحیح طور پر رھایی حاصل کرنا ممکن ہے ۔ حقیقی عرفان میں شریعت اور تقوی پر عمل کرنے کے بغیر کوئی اور محافظ موجود نہیں ہے اور الھی ھدایت اور ولایت کا کوئی بھی راستہ امام اور اولیاء کے بغیر موجود نہیں ہے اسی لئے متقی و پرھیز گار اور وہ لوگ جو ایک کامل عارف کی زیر تربیت قرار پاتے ہیں وہ کبھی بھی ایسے روحانی اور ذھنی خطرات میں نہیں پڑجاتے ہیں، اور انھیں کسی طرح کی "دفاعی تابشوں " کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کلی طور پر یہ سب ناخواستہ مظاھر جو انسان کو پیش آتے ہیں،حقیقت میں خود اس فرد کی چاھت سے پیش آتے ہیں، شاید انسان بلا واسطہ ایسی چاہت نہ رکھتا ہو لیکن جب ایک غیر مھذب انسان سے کہ جس کا مقصد صرف ایک ما فوق الطبیعی طاقت حاصل کرنا ہے اوروہ اپنے آپ کو غیر معلوم اور مشکوک طاقتوں کے مقابلے میں قرار دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے پہلے سے ہی اس مسئلے کے رونما ہونے کا انتظام کیا ہے۔
اس بنا پر ان محتمل روحانی نقصانات ، جن کو دور کرنے کے لیے "دفاعی تابش" کو کام میں لانا پڑتا ہے ، حقیقت میں ان کے اندر انحرافات کا میدان ھموار ہوتا ہے لہذا اس میدان سے دور رہنے کے لیے اور روحانی طاقت اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے اسے نفسانی خواھشات کو چھوڑ کر تزکیہ نفس اور عرفان کو اپنا حقیقی مقصد بنانا ہے تاکہ یہ انحرافی امور بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجائیں ۔
"دفاعی تابشیں" ایک بیرونی عامل کے طور پر جس کا انسان کے باطنی اور اس کے مظاھر کی اصلاح سے کوئی ربط نہیں ہے، حقیقت میں ایک غلط طریقہ کار کے نتیجے اور اس کے انحرانی اثرات سے بھاگنا ہے، کہ جس کی مثال اس بیماری کے جڑ سے ختم کرنے کے بدلے اس کے علامات کو ختم کرنے کا نام ہے۔
یہ کہ انسان شریعت الہی اور خود سازی اور تھذیب نفس پر عمل کرنے کے بغیر ایسے منافع کی امید رکھے جیسے بیماری کا علاج کرنا یا عرفانی تجربیات کو حاصل کرنا کہ جو مکمل طورپر غیر شعوری اور مبھم اور غیر واضح ہوں ) یہاں تک کہ یہ لوگ مدعی ہیں ان امور پر معتقد ہونا بھی ضروری نہیں ہے ( یہ امور ان شیطانی طاقتوں کے لیے میدان ھموار کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جو سالک ، شاگرد یا بیمار کو ایسی چیزوں میں مبتلا کرتے ہیں جو آئے دنوں پیچیدہ تر مسائل بن رہے ہیں ، اور کوئی ان کی ھمراہی اور ھدایت نہیں کرسکتا ہے۔
آج کے دور میں سائیکالوجی کے مکاتب، مافوق سائیکالوجی اور اس کے مشابہ باقی عرفانی مکاتب جو مختلف سماجوں کے اعتقادات ، ثقافت ، دیںی اصلاحات ، عرفانی ادب کے مطابق اور ان کے ساتھ ھم آھنگ پیش کئے جاتے ہیں۔ – جو اپنے پیروکاروں کے درمیان یک خاص اور جھوٹا ولولہ پیدا کرتے ہیں --- لیکن یہ جھوٹ اور کاذب دین کا ظاہر، جاذب نظر ہونے کے علاوہ ، حقیقت میں کوئی تبدیلی لانے کا سبب نہیں بنتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ایسے مکاتب فکر مختلف معاشروں میں دسیوں مکاتب اور سینکڑوں اساتذہ سامنے لاتے ہیں جو آخر کار بعض ذھنی طاقتوں کو استعمال کرنے پر اپنے مریدوں میں ا سے شدید کرنے کے علاوہ کوئی اور حجت اور دلیل نہیں رکھتے ہیں۔ جو کسی بھی طرح عرفانی اور معرفتی ضرورتوں کے جواب گو نہیں ہوسکتے۔
اس لئے عرفان اسلامی میں استاد کامل اور عارف واصل پر تاکید کی گئی ہے کیونکہ یہ فرد عرفانی تربیت کو صحیح نہج پر تربیت کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور عرفانی امور کی حقیقت سے مکمل آگاہ ہوتا ہے اور اس عرفان کی اصل اصیل عرفانی ترقی اور تقوا اور پرھیزگاری کے جذبات سے سرشاراور دنیاوی خواھشات سے دوری اختیار کرنا ہے ۔ لیکن اس کے بر عکس ناقص مکاتب میں ایک جانب روحانی اور ذھنی تعلیمات اور دوسری جانب ان امور کی حقیقت سے جہالت ،انسان کو گمراہی کی دنیا کی جانب لے جاکر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتی ہیں ، یہ ایک ایسا خطرہ ہے جو عام طور پر عرفانی تجربہ کرنے کے خواھش مند افراد کے لیے روحانی مسائل کو قدیم اور جدید طریقے سے خطرات سے دوچار کرتا ہے ، قدیم زمانے سے عرفان کی راہ میں یہ مسائل رونما ہوتے تھے ۔ اسی لئے اس عرفانی راہ میں چلنے کے لیے ) ما فوق طبیعی تجارت کو حاصل کرنے ( امام معصوم کو محور قرار دینا اور ان کے ارشادات سے استفادہ کر کے ایک عارف کامل کو خدا کی جانب سفر کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے اور اس سے ایک ضرورت کے طور پر جانا جاتا ہے ورنہ اس راہ میں منحرف ہونے کے خطرات بہت زیادہ ہیں کہ جس کے نقصانات اس کے منافع سے زیادہ ہیں۔
[1] اس سلسلے میں مزید آگاھی کے لیے ، ملاحظہ کریں ، عنوان ، تناسخ از دیدگاہ اسلام سوال نمبر 3951۔ سایٹ ur4262
[2] شیخ محمود شبستری ، گلشن راز
[3] ایضا