Please Wait
کا
9489
9489
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/02/09
سوال کا خلاصہ
کیا ممکن ہے کہ آپ قرآن مجید میں موجود انسانی حقوق میں سے بعض کا نام لیں؟
سوال
قرآن مجید میں بیان کئے گئے انسانی حقوق کیا ہیں؟
ایک مختصر
قرآن مجید تمام امور کے بارے میں حقوق کے مسائل بیان کرنے میں سرشار ہے، من جملہ انسانی حقوق، انسان کی بہ نسبت خداوند متعال کے حقوق، انبیاء ﴿ع﴾ کے حقوق اور حتی کہ لوگوں کی بہ نسبت خود قرآن مجید کے حقوق وغیرہ ۔ ظاہر ہے کہ ان تمام حقوق پر بحث کرنا اس مختصر مقالہ میں گنجائش نہیں ہے، اس لئے ہم اس مقالہ میں صرف بعض انسانی حقوق پر بحث کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، جو انسان کی مادی زندگی کے ابتدائی حقوق کے عنوان سے مدنظر قرار دئے گئے ہیں، تاکہ انسان ان حقوق کے ذریعہ دنیوی و اخروی سعادت تک پہنچ جائے۔
قرآن مجید میں بیان کئے گئے بعض انسانی حقوق یہ ہیں: حیات کا حق، انسانی کرامت کا حق، عدل و انصاف کا حق، امن و سلامتی کا حق، اولاد پر والدین کا حق، دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کا حق، سائل کا حق، دولتمندوں کے مال میں یتیموں اور محتاجوں کا حق، عقل و شعور سے استفادہ کرنے کا حق، تفکر اور شناخت کا حق، آزادی کا حق، دین اور دینی مراسم منعقد کرنے کا حق وغیرہ ۔
قرآن مجید میں بیان کئے گئے بعض انسانی حقوق یہ ہیں: حیات کا حق، انسانی کرامت کا حق، عدل و انصاف کا حق، امن و سلامتی کا حق، اولاد پر والدین کا حق، دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کا حق، سائل کا حق، دولتمندوں کے مال میں یتیموں اور محتاجوں کا حق، عقل و شعور سے استفادہ کرنے کا حق، تفکر اور شناخت کا حق، آزادی کا حق، دین اور دینی مراسم منعقد کرنے کا حق وغیرہ ۔
تفصیلی جوابات
سب سے پہلے قابل بیان ہے کہ قرآن مجید تمام امور کے بارے میں حقوق کے مسائل بیان کرنے میں سرشار ہے، من جملہ انسانی حقوق، انسان کی بہ نسبت خداوند متعال کے حقوق، انبیاء ﴿ع﴾ کے حقوق اور حتی کہ لوگوں کی بہ نسبت خود قرآن مجید کے حقوق وغیرہ ، ظاہر ہے کہ ان تمام حقوق پر بحث کرنا اس مختصر مقالہ میں گنجائش نہیں ہے، اس لئے ہم اس مقالہ میں صرف بعض انسانی حقوق پر بحث کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، جو انسان کی مادی زندگی کے ابتدائی حقوق کے عنوان سے مدنظر قرار دئے گئے ہیں تاکہ انسان ان حقوق کے ذریعہ دنیوی و اخروی سعادت تک پہنچ جائے۔ اور اس سلسلہ میں بیشتر اور مفصل تر مطالب کو ہم کسی دوسری فرصت پر چھوڑتے ہیں ۔
قابل ذکر ہے کہ جو کچھ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے، وہ انسانی حقوق اور ان کے عینی مصادیق کے چند نمونے ہیں، جن کے بارے میں قرآن مجید میں تاکید کی گئی ہے، اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسانی حقوق ان ہی چند مثالوں تک محدود ہیں اور اس کے علاوہ دوسرے مصادیق نہیں پائے جاتے ہیں:
١۔ زندگی کا حق
ایسا لگتا ہے کہ حیات کا حق، سب سے پہلا حق ہے، جو انسانوں کے لئے ثابت ہے اور یہی حق انسان کے دوسرے حقوق کا سر چشمہ ھوسکتا ہے۔ اگر اس حق کا فقدان ھو تو دوسرے حقوق کی بحث بے معنی رہتی ہے۔
طبیعی اور فطری حقوق میں سے جس حق پر حقوق کے فلاسفہ نے کافی توجہ دی ہے، وہ یہی حیات کا حق ہے۔ قرآن مجید میں حیات کو ایک الہی عطیہ کہا گیا ہے اور کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی سے اس حق کو چھین لے اور جسمانی اور روحانی طور پر کسی کو تکلیف پہنچا دے۔
بہرحال انسان کے سب سے اہم اور بنیادی حقوق میں سے ایک، حق حیات ہے اور کوئی اس حق کو کسی سے چھین نہیں سکتا ہے۔ اس لحاظ سے اسلامی قوانین میں کسی انسان کو قتل کرنا نا قابل عفوجرم کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے اور خداوند متعال نے اس حق کو چھینے والے کے لئے سخت عذاب کا وعدہ دیا ہے۔
قرآن مجید کے مطابق کسی دوسرے کو قتل کرنا غیر قانونی عمل شمار کیا گیا ہے:“ وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ* بِأَي ذَنْبٍ قُتِلَت»؛[1] “ اور جب زندہ درگور لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ انھیں کس گناہ میں مارا گیا ہے۔” وَ لا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَق»؛[2] اور کسی نفس کو جس کو خدا نے محترم بنایا ہے بغیر حق کے قتل بھی نہ کرنا۔” “وَ لا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُمْ رَحیماً”؛[3] “ اپنے نفس کو قتل نہ کرو، اور اللہ تمھارے حال پر بہت مہربان ہے۔”
۲۔ انسانی عظمت کا حق
انسان کے حقوق کے موضوعات میں سے ایک اور بنیادی حق، انسانی عظمت و بزرگی کا حق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام انسان کو بلند اور قابل قدر مقام کا مالک جانتا ہے۔ دینی تعلیمات میں صرف انسان ہے جسے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے، قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ خدا کی روح اس ﴿انسان﴾ میں پھونک دی گئی ہے اور تکریم و تعظیم کا شائستہ، حتی فرشتوں کے لئے سجدہ کرنے کا سبب اور زمین پر خدا کاجانشین یہی انسان قرار پایا ہے۔
“وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَني آدَمَ وَ حَمَلْناهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْناهُمْ مِنَ الطَّیباتِ وَ فَضَّلْناهُمْ عَلى كَثیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضیلاً ”؛[4] ہم نے بنی آدم کو کرامت عطائی ہے اور انھیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔”
۳۔ عدل و انصاف کا حق
عدل و انصاف کا حق اور اس کا متحقق اور مستحکم ھونا، قرآن مجید کے حقوق پر مبنی قوانین میں سے ایک اور قانون ہے، یہاں تک کہ قرآن مجید میں انبیائے الہی کی رسالت اور پیغام رسانی کا مقصد عدل و انصاف بر قرار کرنا بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ھوتا ہے:”
“ لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَیناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمیزانَ لِیقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط”؛[5] “ بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔”
“ یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامینَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ وَ لا یجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوى”؛[6] اے ایمان والو! خدا کے لئے قیام کرنے والے انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو اور خبر دار کسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو۔ انصاف کرو کہ یہی تقوی سے قریب تر ہے۔”
۴۔ امن و سلامتی کا حق
انسان کے حقوق بیان کئے گئے دوسرے مصادیق میں سے، ہر جہت سے امن و سلامتی کا حق ہے۔ کوئی اس حق کو انسان سے چھین کر اسے نفسیاتی اور اجتماعی طور پر نا امنی میں قرار نہیں دے سکتا ہے۔ اس حق کی اس قدر اہمیت ہے کہ قرآن مجید نے مشرکین اور مخالفین کو بھی اس حق کا حقدار جانا ہے: “وَ إِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكينَ اسْتَجارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ...”؛[7] “ اور اگر مشرکین میں کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیدو تاکہ وہ کتاب خدا سنے، اس کے بعد اسے آزاد کرکے جہاں اس کی پناہ گاہ ھو وہاں تک پہنچادو۔”
“ وَ جَعَلْنا بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ الْقُرَى الَّتي بارَكْنا فيها قُرىً ظاهِرَةً وَ قَدَّرْنا فيهَا السَّيْرَ سيرُوا فيها لَيالِيَ وَ أَيَّاماً آمِنين”؛[8] اور جب ہم نے ان کے اور ان کے بستیوں کے درمیان، جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، کچھ نمایاں بستیاں قرار دیں اور ان کے درمیان سیر کو معین کردیا کہ اب دن رات جب چاھو سفر کرو، محفوظ رھو گے۔”
۵۔اولاد پر ماں باپ کا حق
“وَ قَضى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً”؛[9] “ اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتا کرنا۔”
“بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً” والے جملہ کا پہلے والے جملہ پر عطف ھونے کے معنی یہ ہیں کہ پروردگار عالم نے یوں حکم فرمایا ہے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اس جملہ سے ظاہر ھوتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنے کا مسئلہ، توحید کے مسئلہ کے بعد، واجب ترین واجبات میں سے ہے ۔ اسی طرح عقوق والدین کا مسئلہ خدا کا مشرک ھونے کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور اسی وجہ سے اس مسئلہ کا توحید کے مسئلہ کے بعد اور دوسرے تمام احکام سے پہلے ذکر کیا گیا ہے اور اس سے ماں باپ کے حقوق کی اہمیت معلوم ھوتی ہے۔[10]
٦۔ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کا حق
یہ مسئلہ دو زاویوں سے قابل غور ہے: ایک حکام اور عوام کے درمیان معاملات کے طریقہ کے بارے میں ہے اور دوسرا زاویہ لوگوں کے آپسی معاملات کے بارے میں ہے۔ خداوند متعال نے قرآن مجید میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مخاطب ھوکر ارشاد فرمایا ہے:
“َبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُم”؛[11] “ پیغمبر! یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ھو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ھوتے تو یہ تمھارے پاس سے بھاگ گھڑے ھوتے، لہذا اب انھیں معاف کرو۔ ان کے لئے استغفار کرو۔”
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کی سیرت، اپنے مخالفوں حتی کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ ہمیشہ عفو و بخشش ھوتی تھی۔ لیکن ان افراد کے علاوہ جو کھلم کھلا اسلحہ لے کر اسلام کے ساتھ جنگ کرتے تھے اور لوگوں کے حقو ق کو پامال کرتے تھے۔
۷، مساوات برقرار کرنے کا حق
مساوات کا حق، حق کی سب سے اہم مثالوں میں سے ایک ہے، جس کا قرآن مجید نے انسانی حقوق کے لئے ذکر کیا ہے۔ تمام انسانوں کے درمیان حقوق کی مساوات ہے اور کسی انسان کو کسی دوسرے پر برتری اور فضیلت نہیں ہے تاکہ وہ دوسرے پر مسلط ھو جائے۔ اگر قرآن مجید نے امتیاز و برتری کو تقوی بیان کیا ہے، تو یہ ایسی چیز نہیں ہے جس سے کوئی دنیا میں اپنی برتری جتلائے، کیونکہ تقوی ایک باطنی امر ہے اور اخروی امتیاز و پاداش کا سبب بن جاتا ہے ۔
مساوات کے حق کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شخص کسی بھی حالت میں اپنے آپ کو دوسرے پر برتر سمجھ کر اپنی طاقت اور اثر رسوخ کا مظاہرہ نہیں کرسکتا ہے۔ اس لحاظ سے فطری طور پر کسی کو کسی پر ولایت کا حق نہیں ہے۔ لیکن اولاد پر والدین کی ولایت ان کے مفاد کی بنیاد پر انجام پاتی ہے اور جب ان کی اولاد بالغ اور عاقل بن جاتی ہے تو یہ ولایت بھی کافی محدود ھوتی ہے۔
جس مساوات کا قرآن مجید قائل ہے، وہ دو حصوں پر مشتمل ہے: اصل انسانیت میں مساوات اور قوانین و احکام کو نفاذ کرنے میں مساوات: “یا أَیهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ”؛[12] “ انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔”
۸۔ دولتمندوں کے مال میں یتیموں اور محتاجوں کا حق
خدا وند متعال نے دولتمندوں کے مال میں سماج کے فقراء ، یتیموں اور محتاجوں کے لئے کچھ حقوق قرار دئے ہیں اور قرآن مجید میں اس کی صراحت کی گئی ہے: “ وَ الَّذینَ فی أَمْوالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ* لِلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُومِ”؛[13]
“ اور جن کے اموال میں ایک مقررہ حق معین ہے، مانگنے والے کے لئے اور نہ مانگنے والے کے لئے۔“ وَ أَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَر”؛[14] “ اور سائل کو جھڑک مت دینا” “ سائل” کا حق یہ ہے کہ اگر انسان جانتا ھو کہ یہ سچ کہتا ہے تو اسے اپنی طاقت اور توانائی کے مطابق اس کی حاجت پوری کرنی چاہئیے اور اسے اپنی حاجت روائی تک پہنچنے میں مدد کرنی چاہئیے اور اس کے کہنے کے سچ ھونے میں شک کرے تو اسے ہوشیار رہنا چاہئیے کہ کہیں اس کی بدظنی اور شک شیطان کے وسوسہ کی وجہ سے تو نہیں ہے؟ تاکہ وہ اسے کارخیر انجام دینے اور خداوند متعال کا قرب حاصل کرنے سے محروم کرنا چاہتا ھو۔ بہرحال اگر انسان سائل کو محروم کرنا بھی چاہتاھو، تو اسے اس کی آبرو اور حیثیت کو مجروح نہیں کرنا چاہئیے بلکہ اسے نیک الفاظ سے جواب دینا چاہئیے۔[15]
۹۔ انسان کا اپنے آپ پر حق
ہر انسان کا اپنے آپ پر حق کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہر قسم کے خطرات اور مالی نقصان سے محفوظ رکھے۔ اس بنا پر انسان کو خود کشی کرنے یا اپنی جان کو کوئی نقصان پہنچانے کا حق نہیں ہے۔ خداوند متعال نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر خود کشی کی نہی کی ہے، چنانچہ ارشاد فرماتا ہے: “ وَ لا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُمْ رَحیماً”؛[16] “ اور خبر دار اپنے نفس کو قتل نہ کرو۔ اللہ تمھارے حال پر بہت مہربان ہے۔”
اس کے علاوہ ارشاد فرماتا ہے: “ وَ لا تُلْقُوا بِأَیدیكُمْ إِلَى التَّهْلُكَة”؛[17] “ اور اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔”
اسی طرح انسان کو اپنی شخصیت کو نابود کرنے کے اسباب فراہم نہیں کرنےچاہئیے، کیونکہ اس کی شخصیت اس کی معنوی حیات ہے۔
١۰۔ تعقل، تفکر اور شناخت کا حق
ہر فرد اس حق کا مالک ہے کہ اپنے اور زندگی کرنے والے ماحول کے بارے میں علم و آگاہی حاصل کرے اور حق و باطل کی راہ کو پہچان لے، اس لحاظ سے علم و دانش میں رکاوٹ ڈالنا، انسان کے فطری حقوق سے چشم پوشی کرنے کے معنی میں ہے۔ کوئی معاشرہ کسی انسان سے شناخت و معرفت کے وسائل و امکانات سلب نہیں کرسکتا ہے، بلکہ علم و دانش حاصل کرنے کے لئے وسائل اور امکانات فراہم کرنا چاہئیے۔
“بیشک زمین و آسمان کی خلقت روز و شب کی رفت و آمد۔ ان کشتیوں میں جو دریاؤں میں لوگوں کے فائدہ کے لئے چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے خدا نے آسمان سے نازل کرکے اس کے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کردیا ہے اور اس میں طرح طرح کے چوپائے پھیلا دئے ہیں اور ھواؤں کے چلانے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کے لئے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں”۔[18]
“وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ”؛[19] “ اور آپ کی طرف بھی ذکر ﴿قرآن﴾ کو نازل کیا ہے تاکہ ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں اور شائد یہ اس بارے میں کچھ غور و فکر کریں۔”
١١۔ آزادی کا حق
ایک اہم حق، جسے قرآن مجید انسان کے لئے بیان کرتا ہے، وہ آزادی کا حق ہے۔چونکہ قرآن مجید کے نظریہ کے مطابق انسان ایک مختار مخلوق ہے اور صرف خداوند متعال کے حضور مکلف و جواب گو ہے، اس لئے وہ ہر لحاظ سے آزاد ہے، اس سلسلہ میں ارشاد ھوتا ہے: “ وَ لَوْ شاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِی الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمیعاً أَ فَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى یكُونُوا مُؤْمِنینَ”؛[20] “ اور اگر خدا چاہتا تو روئے زمین پر رہنے والے سب ایمان لے آتے، تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے کہ سب مؤمن بن جائیں۔” إ“ِنَّا هَدَیناهُ السَّبیلَ إِمَّا شاكِراً وَ إِمَّا كَفُوراً”؛[21] “ یقیناً ہم نے اسے راستی کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ھو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ھو جائے۔”
١۲۔ دین اور دینی مراسم انجام دینے کی آزادی
زندگی کے ابتدائی حقوق کے بعد انسان کے لئے سب سے اہم حق، اس کے ذاتی دین کا حق ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد باری تعالی ہے کہ: “قُلْ يا أَيُّهَا الْكافِرُونَ* لا أَعْبُدُ ما تَعْبُدُونَ* وَ لا أَنْتُمْ عابِدُونَ ما أَعْبُدُ* ... لَكُمْ دينُكُمْ وَ لِيَ دينِ”؛[22] “ آپ کہدیجئے کہ اے کافرو! میں ان خداؤں کی عبادت نہیں کرسکا جن کی تم پوجا کرتے ھو۔ اور نہ تم میرے خدا کی عبادت کرنے والے ھو اور نہ میں تمھارے معبودوں کی پوجا کرنے والاھوں اور نہ تم میرے معبود کے عبادت گزار ھو۔ تمھارے لئے تمھارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔”
١۳۔ کار و کوشش سے بہرہ مند ھونے کا حق
“وَ أَنْ لَیسَ لِلْإِنْسانِ إِلاَّ ما سَعی ”؛[23]“ اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے۔”
١۴۔ تجارت کا حق
تجارت کا حق، عام لوگوں، من جملہ زن و مرد کے لئے، انسان کے فطری حقوق میں شمار کیا گیا ہے، اس لحاظ سے ہر شخص جائز مال و دولت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرسکتا ہے اور تجارت و کاروبار سے بہرہ مند ھوسکتا ہے۔ ارشاد الہی ہے: “ِلرِّجالِ نَصیبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَ لِلنِّساءِ نَصیبٌ مِمَّا اكْتَسَبْن”؛[24]“ مردوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمایا ہے اور عورتوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے حاصل کیا یے۔ ﴿ اور کسی کا حق پامال نہیں ھونا چاہئیے۔﴾”
صرف ناجائز کار، جو حقیقت میں دوسروں پر ظلم و ستم ہے، غلط اور ممنوع ہے اور یہ ایک فطری بات ہے۔[25]
١۵۔ ازدواج کا حق
انسان کے حقوق میں سے ایک شریک حیات کا انتخاب اور خاندان تشکیل دینے کا حق ہے اور ہر مرد و زن کو، اپنے فکری ثقافتی اور دینی حالات کے پیش نظر ازدواج کرنے کا حق ہے: “ فَانْكِحُوا ما طابَ لَكُمْ مِنَ النِّساءِ مَثْنى وَ ثُلاثَ وَ رُباعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوا فَواحِدَة”؛[26] “وَ مِنْ آياتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْواجاً لِتَسْكُنُوا إِلَيْها وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَ رَحْمَةً”؛[27] تو جو عورتیں تمھیں پسند ہیں دو، تین، چار، ان سے نکاح کرلو اور اگر ان میں بھی انصاف نہ کرسکنے کا خطرہ ہے تو صرف ایک” “ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نےتمھارا جوڑا تمھیں میں سے پیدا کیا ہے تاکہ تمھیں اس سے سکون حاصل ھو اور پھر تمھارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے۔”
١٦۔ سیر و سفر کا حق
شہروں، ممالک میں قوموں اور ممالک کی تاریخ، ثقافت، اور تہذیب و تمدن کے بارے میں آشنائی حاصل کرن کے لئے سیر و سفر کرنا ایک ایسا حق ہے، جس کو قرآن مجید نے انسان کے لئے بیان کیا ہے: “ قُلْ سيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبين”؛[28] آپ ان سے کہدیجئے کہ زمین میں سیر کریں پھر اس کے بعد دیکھیں کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ھوتا ہے۔”
١۷۔ صلہ رحم اور رشتہ داروں کا حق
ارشاد باری تعالی ہے:“ وَ أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ في كِتابِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَليمٌ”؛[29] “ اور قرابتدار، کتاب خدا میں سب آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ اولویت اور قربت رکھتے ہیں ، بیشک اللہ ہرشے کا بہترین جاننے والا ہے۔”
قرآن مجید اس آیہ شریفہ میں تاکید کرتا ہے کہ دوسرے مؤمنین کی بہ نسبت رشتہ داروں کی ولایت و برتری قوی تر و جامع تر ہے، کیونکہ مسلمان رشتہ دار ایمان و ہجرت کی ولایت کے علاوہ رشتہ داری کی ولایت بھی رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے وراثت حاصل کرتے ہیں، جبکہ غیر رشتہ دار ایک دوسرے سے وراثت نہیں لیتے ہیں۔
١۸۔ عبادت و پرستش کا حق
“ وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ إِلاَّ رِجالاً نُوحي إِلَيْهِمْ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ”؛[30] “ اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں کو ہی رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان کی طرف بھی وحی کرتے رہے ہیں تو ان سے کہئے کہ اگر تم نہیں جانتے ھو تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔”
“ذکر” کے معنی آگاہی و اطلاع ہیں اور اہل ذکر کا مفہوم ایک وسیع مفہوم ہے کہ مختلف جہات سے تمام آگاہ افراد اس میں شامل ھوتے ہیں۔[31] یعنی یہ آپ کا حق ہے کہ جو کچھ نہیں جانتے ھو اس کے بارے میں آگاہ اور اہل علم سے سوال کرو۔
١۹۔ مالکییت کا حق
ہر فرد اپنی کمائی کا مالک ہے۔ دولت کمانے میں انسان جو کوشش کرتا ہے وہ کوشش اس کے لئے ایک خاص حق پیدا کرتی ہے کہ اسے مالکیت کاحق کہتے ہیں، اس لحاظ سے انسان اپنے مال مویشی اور بنجر زمین کو احیاء کرکے اس کا مالک بن جاتا ہے اور اس سے بہرہمند ھونے کا حق رکھتا ہے: “مَتاعاً لَكُمْ وَ لِأَنْعامِكُمْ”.[32]
قرآن مجید کے مطابق تمام لوگوں کے لئے خصوصی مالکیت کا حق ثابت ہے اور حتی کہ نا بالغ افراد بھی اس سے بہرہ مند ھوتے ہیں:“ اور یتیموں کا امتحان لو اور جب وہ نکاح کے قابل ھو جائیں تو اگر ان میں رشید ھونے کا احساس کرو تو ان کے اموال ان کے حوالے کردو اور زیادتی کے ساتھ یا اس خوف سے کہ کہیں وہ بڑے نہ ھو جائیں جلدی جلدی نہ کھا جاؤاور تم میں جو غنی ہے وہ ان کے مال سے پرہیز کرے اور جو فقیر ہے وہ بھی صرف بقدر مناسب کھائے ۔ پھر جب ان کے اموال ان کے حوالے کرو تو گواہ بنا لو اور خدا تو حساب کے لئے خود ہی کافی ہے۔[33]
۲۰۔ طبیعی نعمتوں سے بہرہ مند ھونے کا حق
خداوند متعال، قرآن مجید میں پہاڑ، صحرا، آسمان، زمین چراگاہ جیسی اپنی نعمتوں کی توصیف کرنے کے بعد ان سب چیزوں کو انسان کے لئے متاع اور ان سے بہرہ مند ھونے کا حق بیان کرتا ہے اور مویشوں کو انسانی کی خدمت میں جانتا ہے اور تمام لوگوں کے لئے طبیعی نعمتوں سے بہرہ مند ھونے کا حق جانتا ہے: : “ وَ سَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ جَميعاً مِنْه”؛[34] “ اور اس نے تمھارے لئے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے۔”
“وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهار”؛[35] “ اور کشتیوں کو تمھارے لئے مسخر کردیا ہے کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلیں اور تمھارے لئے نہروں کو بھی مسخر کر دیا ہے۔”
قابل ذکر ہے کہ جو کچھ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے، وہ انسانی حقوق اور ان کے عینی مصادیق کے چند نمونے ہیں، جن کے بارے میں قرآن مجید میں تاکید کی گئی ہے، اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسانی حقوق ان ہی چند مثالوں تک محدود ہیں اور اس کے علاوہ دوسرے مصادیق نہیں پائے جاتے ہیں:
١۔ زندگی کا حق
ایسا لگتا ہے کہ حیات کا حق، سب سے پہلا حق ہے، جو انسانوں کے لئے ثابت ہے اور یہی حق انسان کے دوسرے حقوق کا سر چشمہ ھوسکتا ہے۔ اگر اس حق کا فقدان ھو تو دوسرے حقوق کی بحث بے معنی رہتی ہے۔
طبیعی اور فطری حقوق میں سے جس حق پر حقوق کے فلاسفہ نے کافی توجہ دی ہے، وہ یہی حیات کا حق ہے۔ قرآن مجید میں حیات کو ایک الہی عطیہ کہا گیا ہے اور کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی سے اس حق کو چھین لے اور جسمانی اور روحانی طور پر کسی کو تکلیف پہنچا دے۔
بہرحال انسان کے سب سے اہم اور بنیادی حقوق میں سے ایک، حق حیات ہے اور کوئی اس حق کو کسی سے چھین نہیں سکتا ہے۔ اس لحاظ سے اسلامی قوانین میں کسی انسان کو قتل کرنا نا قابل عفوجرم کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے اور خداوند متعال نے اس حق کو چھینے والے کے لئے سخت عذاب کا وعدہ دیا ہے۔
قرآن مجید کے مطابق کسی دوسرے کو قتل کرنا غیر قانونی عمل شمار کیا گیا ہے:“ وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ* بِأَي ذَنْبٍ قُتِلَت»؛[1] “ اور جب زندہ درگور لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ انھیں کس گناہ میں مارا گیا ہے۔” وَ لا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَق»؛[2] اور کسی نفس کو جس کو خدا نے محترم بنایا ہے بغیر حق کے قتل بھی نہ کرنا۔” “وَ لا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُمْ رَحیماً”؛[3] “ اپنے نفس کو قتل نہ کرو، اور اللہ تمھارے حال پر بہت مہربان ہے۔”
۲۔ انسانی عظمت کا حق
انسان کے حقوق کے موضوعات میں سے ایک اور بنیادی حق، انسانی عظمت و بزرگی کا حق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام انسان کو بلند اور قابل قدر مقام کا مالک جانتا ہے۔ دینی تعلیمات میں صرف انسان ہے جسے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے، قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ خدا کی روح اس ﴿انسان﴾ میں پھونک دی گئی ہے اور تکریم و تعظیم کا شائستہ، حتی فرشتوں کے لئے سجدہ کرنے کا سبب اور زمین پر خدا کاجانشین یہی انسان قرار پایا ہے۔
“وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَني آدَمَ وَ حَمَلْناهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْناهُمْ مِنَ الطَّیباتِ وَ فَضَّلْناهُمْ عَلى كَثیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضیلاً ”؛[4] ہم نے بنی آدم کو کرامت عطائی ہے اور انھیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔”
۳۔ عدل و انصاف کا حق
عدل و انصاف کا حق اور اس کا متحقق اور مستحکم ھونا، قرآن مجید کے حقوق پر مبنی قوانین میں سے ایک اور قانون ہے، یہاں تک کہ قرآن مجید میں انبیائے الہی کی رسالت اور پیغام رسانی کا مقصد عدل و انصاف بر قرار کرنا بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ھوتا ہے:”
“ لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَیناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمیزانَ لِیقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط”؛[5] “ بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔”
“ یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامینَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ وَ لا یجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوى”؛[6] اے ایمان والو! خدا کے لئے قیام کرنے والے انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو اور خبر دار کسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو۔ انصاف کرو کہ یہی تقوی سے قریب تر ہے۔”
۴۔ امن و سلامتی کا حق
انسان کے حقوق بیان کئے گئے دوسرے مصادیق میں سے، ہر جہت سے امن و سلامتی کا حق ہے۔ کوئی اس حق کو انسان سے چھین کر اسے نفسیاتی اور اجتماعی طور پر نا امنی میں قرار نہیں دے سکتا ہے۔ اس حق کی اس قدر اہمیت ہے کہ قرآن مجید نے مشرکین اور مخالفین کو بھی اس حق کا حقدار جانا ہے: “وَ إِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكينَ اسْتَجارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ...”؛[7] “ اور اگر مشرکین میں کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیدو تاکہ وہ کتاب خدا سنے، اس کے بعد اسے آزاد کرکے جہاں اس کی پناہ گاہ ھو وہاں تک پہنچادو۔”
“ وَ جَعَلْنا بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ الْقُرَى الَّتي بارَكْنا فيها قُرىً ظاهِرَةً وَ قَدَّرْنا فيهَا السَّيْرَ سيرُوا فيها لَيالِيَ وَ أَيَّاماً آمِنين”؛[8] اور جب ہم نے ان کے اور ان کے بستیوں کے درمیان، جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، کچھ نمایاں بستیاں قرار دیں اور ان کے درمیان سیر کو معین کردیا کہ اب دن رات جب چاھو سفر کرو، محفوظ رھو گے۔”
۵۔اولاد پر ماں باپ کا حق
“وَ قَضى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً”؛[9] “ اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتا کرنا۔”
“بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً” والے جملہ کا پہلے والے جملہ پر عطف ھونے کے معنی یہ ہیں کہ پروردگار عالم نے یوں حکم فرمایا ہے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اس جملہ سے ظاہر ھوتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنے کا مسئلہ، توحید کے مسئلہ کے بعد، واجب ترین واجبات میں سے ہے ۔ اسی طرح عقوق والدین کا مسئلہ خدا کا مشرک ھونے کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور اسی وجہ سے اس مسئلہ کا توحید کے مسئلہ کے بعد اور دوسرے تمام احکام سے پہلے ذکر کیا گیا ہے اور اس سے ماں باپ کے حقوق کی اہمیت معلوم ھوتی ہے۔[10]
٦۔ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کا حق
یہ مسئلہ دو زاویوں سے قابل غور ہے: ایک حکام اور عوام کے درمیان معاملات کے طریقہ کے بارے میں ہے اور دوسرا زاویہ لوگوں کے آپسی معاملات کے بارے میں ہے۔ خداوند متعال نے قرآن مجید میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مخاطب ھوکر ارشاد فرمایا ہے:
“َبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُم”؛[11] “ پیغمبر! یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ھو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ھوتے تو یہ تمھارے پاس سے بھاگ گھڑے ھوتے، لہذا اب انھیں معاف کرو۔ ان کے لئے استغفار کرو۔”
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کی سیرت، اپنے مخالفوں حتی کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ ہمیشہ عفو و بخشش ھوتی تھی۔ لیکن ان افراد کے علاوہ جو کھلم کھلا اسلحہ لے کر اسلام کے ساتھ جنگ کرتے تھے اور لوگوں کے حقو ق کو پامال کرتے تھے۔
۷، مساوات برقرار کرنے کا حق
مساوات کا حق، حق کی سب سے اہم مثالوں میں سے ایک ہے، جس کا قرآن مجید نے انسانی حقوق کے لئے ذکر کیا ہے۔ تمام انسانوں کے درمیان حقوق کی مساوات ہے اور کسی انسان کو کسی دوسرے پر برتری اور فضیلت نہیں ہے تاکہ وہ دوسرے پر مسلط ھو جائے۔ اگر قرآن مجید نے امتیاز و برتری کو تقوی بیان کیا ہے، تو یہ ایسی چیز نہیں ہے جس سے کوئی دنیا میں اپنی برتری جتلائے، کیونکہ تقوی ایک باطنی امر ہے اور اخروی امتیاز و پاداش کا سبب بن جاتا ہے ۔
مساوات کے حق کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شخص کسی بھی حالت میں اپنے آپ کو دوسرے پر برتر سمجھ کر اپنی طاقت اور اثر رسوخ کا مظاہرہ نہیں کرسکتا ہے۔ اس لحاظ سے فطری طور پر کسی کو کسی پر ولایت کا حق نہیں ہے۔ لیکن اولاد پر والدین کی ولایت ان کے مفاد کی بنیاد پر انجام پاتی ہے اور جب ان کی اولاد بالغ اور عاقل بن جاتی ہے تو یہ ولایت بھی کافی محدود ھوتی ہے۔
جس مساوات کا قرآن مجید قائل ہے، وہ دو حصوں پر مشتمل ہے: اصل انسانیت میں مساوات اور قوانین و احکام کو نفاذ کرنے میں مساوات: “یا أَیهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ”؛[12] “ انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔”
۸۔ دولتمندوں کے مال میں یتیموں اور محتاجوں کا حق
خدا وند متعال نے دولتمندوں کے مال میں سماج کے فقراء ، یتیموں اور محتاجوں کے لئے کچھ حقوق قرار دئے ہیں اور قرآن مجید میں اس کی صراحت کی گئی ہے: “ وَ الَّذینَ فی أَمْوالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ* لِلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُومِ”؛[13]
“ اور جن کے اموال میں ایک مقررہ حق معین ہے، مانگنے والے کے لئے اور نہ مانگنے والے کے لئے۔“ وَ أَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَر”؛[14] “ اور سائل کو جھڑک مت دینا” “ سائل” کا حق یہ ہے کہ اگر انسان جانتا ھو کہ یہ سچ کہتا ہے تو اسے اپنی طاقت اور توانائی کے مطابق اس کی حاجت پوری کرنی چاہئیے اور اسے اپنی حاجت روائی تک پہنچنے میں مدد کرنی چاہئیے اور اس کے کہنے کے سچ ھونے میں شک کرے تو اسے ہوشیار رہنا چاہئیے کہ کہیں اس کی بدظنی اور شک شیطان کے وسوسہ کی وجہ سے تو نہیں ہے؟ تاکہ وہ اسے کارخیر انجام دینے اور خداوند متعال کا قرب حاصل کرنے سے محروم کرنا چاہتا ھو۔ بہرحال اگر انسان سائل کو محروم کرنا بھی چاہتاھو، تو اسے اس کی آبرو اور حیثیت کو مجروح نہیں کرنا چاہئیے بلکہ اسے نیک الفاظ سے جواب دینا چاہئیے۔[15]
۹۔ انسان کا اپنے آپ پر حق
ہر انسان کا اپنے آپ پر حق کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہر قسم کے خطرات اور مالی نقصان سے محفوظ رکھے۔ اس بنا پر انسان کو خود کشی کرنے یا اپنی جان کو کوئی نقصان پہنچانے کا حق نہیں ہے۔ خداوند متعال نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر خود کشی کی نہی کی ہے، چنانچہ ارشاد فرماتا ہے: “ وَ لا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُمْ رَحیماً”؛[16] “ اور خبر دار اپنے نفس کو قتل نہ کرو۔ اللہ تمھارے حال پر بہت مہربان ہے۔”
اس کے علاوہ ارشاد فرماتا ہے: “ وَ لا تُلْقُوا بِأَیدیكُمْ إِلَى التَّهْلُكَة”؛[17] “ اور اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔”
اسی طرح انسان کو اپنی شخصیت کو نابود کرنے کے اسباب فراہم نہیں کرنےچاہئیے، کیونکہ اس کی شخصیت اس کی معنوی حیات ہے۔
١۰۔ تعقل، تفکر اور شناخت کا حق
ہر فرد اس حق کا مالک ہے کہ اپنے اور زندگی کرنے والے ماحول کے بارے میں علم و آگاہی حاصل کرے اور حق و باطل کی راہ کو پہچان لے، اس لحاظ سے علم و دانش میں رکاوٹ ڈالنا، انسان کے فطری حقوق سے چشم پوشی کرنے کے معنی میں ہے۔ کوئی معاشرہ کسی انسان سے شناخت و معرفت کے وسائل و امکانات سلب نہیں کرسکتا ہے، بلکہ علم و دانش حاصل کرنے کے لئے وسائل اور امکانات فراہم کرنا چاہئیے۔
“بیشک زمین و آسمان کی خلقت روز و شب کی رفت و آمد۔ ان کشتیوں میں جو دریاؤں میں لوگوں کے فائدہ کے لئے چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے خدا نے آسمان سے نازل کرکے اس کے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کردیا ہے اور اس میں طرح طرح کے چوپائے پھیلا دئے ہیں اور ھواؤں کے چلانے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کے لئے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں”۔[18]
“وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ”؛[19] “ اور آپ کی طرف بھی ذکر ﴿قرآن﴾ کو نازل کیا ہے تاکہ ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں اور شائد یہ اس بارے میں کچھ غور و فکر کریں۔”
١١۔ آزادی کا حق
ایک اہم حق، جسے قرآن مجید انسان کے لئے بیان کرتا ہے، وہ آزادی کا حق ہے۔چونکہ قرآن مجید کے نظریہ کے مطابق انسان ایک مختار مخلوق ہے اور صرف خداوند متعال کے حضور مکلف و جواب گو ہے، اس لئے وہ ہر لحاظ سے آزاد ہے، اس سلسلہ میں ارشاد ھوتا ہے: “ وَ لَوْ شاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِی الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمیعاً أَ فَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى یكُونُوا مُؤْمِنینَ”؛[20] “ اور اگر خدا چاہتا تو روئے زمین پر رہنے والے سب ایمان لے آتے، تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے کہ سب مؤمن بن جائیں۔” إ“ِنَّا هَدَیناهُ السَّبیلَ إِمَّا شاكِراً وَ إِمَّا كَفُوراً”؛[21] “ یقیناً ہم نے اسے راستی کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ھو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ھو جائے۔”
١۲۔ دین اور دینی مراسم انجام دینے کی آزادی
زندگی کے ابتدائی حقوق کے بعد انسان کے لئے سب سے اہم حق، اس کے ذاتی دین کا حق ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد باری تعالی ہے کہ: “قُلْ يا أَيُّهَا الْكافِرُونَ* لا أَعْبُدُ ما تَعْبُدُونَ* وَ لا أَنْتُمْ عابِدُونَ ما أَعْبُدُ* ... لَكُمْ دينُكُمْ وَ لِيَ دينِ”؛[22] “ آپ کہدیجئے کہ اے کافرو! میں ان خداؤں کی عبادت نہیں کرسکا جن کی تم پوجا کرتے ھو۔ اور نہ تم میرے خدا کی عبادت کرنے والے ھو اور نہ میں تمھارے معبودوں کی پوجا کرنے والاھوں اور نہ تم میرے معبود کے عبادت گزار ھو۔ تمھارے لئے تمھارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔”
١۳۔ کار و کوشش سے بہرہ مند ھونے کا حق
“وَ أَنْ لَیسَ لِلْإِنْسانِ إِلاَّ ما سَعی ”؛[23]“ اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے۔”
١۴۔ تجارت کا حق
تجارت کا حق، عام لوگوں، من جملہ زن و مرد کے لئے، انسان کے فطری حقوق میں شمار کیا گیا ہے، اس لحاظ سے ہر شخص جائز مال و دولت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرسکتا ہے اور تجارت و کاروبار سے بہرہ مند ھوسکتا ہے۔ ارشاد الہی ہے: “ِلرِّجالِ نَصیبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَ لِلنِّساءِ نَصیبٌ مِمَّا اكْتَسَبْن”؛[24]“ مردوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمایا ہے اور عورتوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے حاصل کیا یے۔ ﴿ اور کسی کا حق پامال نہیں ھونا چاہئیے۔﴾”
صرف ناجائز کار، جو حقیقت میں دوسروں پر ظلم و ستم ہے، غلط اور ممنوع ہے اور یہ ایک فطری بات ہے۔[25]
١۵۔ ازدواج کا حق
انسان کے حقوق میں سے ایک شریک حیات کا انتخاب اور خاندان تشکیل دینے کا حق ہے اور ہر مرد و زن کو، اپنے فکری ثقافتی اور دینی حالات کے پیش نظر ازدواج کرنے کا حق ہے: “ فَانْكِحُوا ما طابَ لَكُمْ مِنَ النِّساءِ مَثْنى وَ ثُلاثَ وَ رُباعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوا فَواحِدَة”؛[26] “وَ مِنْ آياتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْواجاً لِتَسْكُنُوا إِلَيْها وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَ رَحْمَةً”؛[27] تو جو عورتیں تمھیں پسند ہیں دو، تین، چار، ان سے نکاح کرلو اور اگر ان میں بھی انصاف نہ کرسکنے کا خطرہ ہے تو صرف ایک” “ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نےتمھارا جوڑا تمھیں میں سے پیدا کیا ہے تاکہ تمھیں اس سے سکون حاصل ھو اور پھر تمھارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے۔”
١٦۔ سیر و سفر کا حق
شہروں، ممالک میں قوموں اور ممالک کی تاریخ، ثقافت، اور تہذیب و تمدن کے بارے میں آشنائی حاصل کرن کے لئے سیر و سفر کرنا ایک ایسا حق ہے، جس کو قرآن مجید نے انسان کے لئے بیان کیا ہے: “ قُلْ سيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبين”؛[28] آپ ان سے کہدیجئے کہ زمین میں سیر کریں پھر اس کے بعد دیکھیں کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ھوتا ہے۔”
١۷۔ صلہ رحم اور رشتہ داروں کا حق
ارشاد باری تعالی ہے:“ وَ أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ في كِتابِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَليمٌ”؛[29] “ اور قرابتدار، کتاب خدا میں سب آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ اولویت اور قربت رکھتے ہیں ، بیشک اللہ ہرشے کا بہترین جاننے والا ہے۔”
قرآن مجید اس آیہ شریفہ میں تاکید کرتا ہے کہ دوسرے مؤمنین کی بہ نسبت رشتہ داروں کی ولایت و برتری قوی تر و جامع تر ہے، کیونکہ مسلمان رشتہ دار ایمان و ہجرت کی ولایت کے علاوہ رشتہ داری کی ولایت بھی رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے وراثت حاصل کرتے ہیں، جبکہ غیر رشتہ دار ایک دوسرے سے وراثت نہیں لیتے ہیں۔
١۸۔ عبادت و پرستش کا حق
“ وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ إِلاَّ رِجالاً نُوحي إِلَيْهِمْ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ”؛[30] “ اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں کو ہی رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان کی طرف بھی وحی کرتے رہے ہیں تو ان سے کہئے کہ اگر تم نہیں جانتے ھو تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔”
“ذکر” کے معنی آگاہی و اطلاع ہیں اور اہل ذکر کا مفہوم ایک وسیع مفہوم ہے کہ مختلف جہات سے تمام آگاہ افراد اس میں شامل ھوتے ہیں۔[31] یعنی یہ آپ کا حق ہے کہ جو کچھ نہیں جانتے ھو اس کے بارے میں آگاہ اور اہل علم سے سوال کرو۔
١۹۔ مالکییت کا حق
ہر فرد اپنی کمائی کا مالک ہے۔ دولت کمانے میں انسان جو کوشش کرتا ہے وہ کوشش اس کے لئے ایک خاص حق پیدا کرتی ہے کہ اسے مالکیت کاحق کہتے ہیں، اس لحاظ سے انسان اپنے مال مویشی اور بنجر زمین کو احیاء کرکے اس کا مالک بن جاتا ہے اور اس سے بہرہمند ھونے کا حق رکھتا ہے: “مَتاعاً لَكُمْ وَ لِأَنْعامِكُمْ”.[32]
قرآن مجید کے مطابق تمام لوگوں کے لئے خصوصی مالکیت کا حق ثابت ہے اور حتی کہ نا بالغ افراد بھی اس سے بہرہ مند ھوتے ہیں:“ اور یتیموں کا امتحان لو اور جب وہ نکاح کے قابل ھو جائیں تو اگر ان میں رشید ھونے کا احساس کرو تو ان کے اموال ان کے حوالے کردو اور زیادتی کے ساتھ یا اس خوف سے کہ کہیں وہ بڑے نہ ھو جائیں جلدی جلدی نہ کھا جاؤاور تم میں جو غنی ہے وہ ان کے مال سے پرہیز کرے اور جو فقیر ہے وہ بھی صرف بقدر مناسب کھائے ۔ پھر جب ان کے اموال ان کے حوالے کرو تو گواہ بنا لو اور خدا تو حساب کے لئے خود ہی کافی ہے۔[33]
۲۰۔ طبیعی نعمتوں سے بہرہ مند ھونے کا حق
خداوند متعال، قرآن مجید میں پہاڑ، صحرا، آسمان، زمین چراگاہ جیسی اپنی نعمتوں کی توصیف کرنے کے بعد ان سب چیزوں کو انسان کے لئے متاع اور ان سے بہرہ مند ھونے کا حق بیان کرتا ہے اور مویشوں کو انسانی کی خدمت میں جانتا ہے اور تمام لوگوں کے لئے طبیعی نعمتوں سے بہرہ مند ھونے کا حق جانتا ہے: : “ وَ سَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ جَميعاً مِنْه”؛[34] “ اور اس نے تمھارے لئے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے۔”
“وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهار”؛[35] “ اور کشتیوں کو تمھارے لئے مسخر کردیا ہے کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلیں اور تمھارے لئے نہروں کو بھی مسخر کر دیا ہے۔”
[1]. تکویر، 8- 9.
[2]. اسراء، 33.
[3]. نساء، 29.
[4]. اسراء، 70.
[5]. حدید، 52.
[6]. مائده، 8.
[7]. توبه، 6.
[8]. سبأ، 18.
[9]. اسراء، 23.
[10] ملاحظہ ھو: طباطبائی، سید محمد حسین، الميزان في تفسير القرآن، ج 13، ص 79، دفتر انتشارات اسلامی، قم، ۱۴۱۷ق.
[11]. آل عمران، 159.
[12]. حجرات، 13.
[13]. معارج، 24- 25.
[14]. ضحی، 10.
[15] ملاحظہ ھو: تکدیگری از نگاه قرآن و روایات، ۳۰۳۹۴.
[16]. نساء، 29.
[17]. بقره، 195.
[18] بقرہ، ١٦۴
[19]. نحل، 44.
[20]. یونس، 99.
[21]. انسان، 3.
[22]. کافرون، 6.
[23]. نجم، ۳۹.
[24]. نساء، 32.
[25] ملاحظہ ھو: بقرہ آیہ ١۸۸و ۲۷۵و ۲۷۸﴾
[26]. نساء، 3.
[27]. روم، 21.
[28]. انعام، 11.
[29]. انفال، 75.
[30]. نحل، 43.
[31] ملاحظہ ھو: مکارم شیرازی، ناسر، تفسیر نمونہ، ج ١١،ص ۲۴١، دار الکتب الاسلامیة، تھران، ١۳۷۴ش۔
[32]. نازعات، 33.
[33] نساء،٦،
[34]. جاثیه، 13.
[35]. ابراهیم، 32.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے