Please Wait
12218
کلوننگ یا مشابھ بنانا، خصوصا انسان کی کلوننگ مستحدث ( نئے ) مسائل میں سےھے۔ اسی لئے اس کا حکم آیات اور اور روایات میں بیان نھیں ھوا ھے۔ لیکن شیعھ علماء اور فقھاء نے آیات اور روایات میں اجتھاد کے طریقے سے اس مسئلھ کے بارے میں اپنا نقطھ نظر بیان کیا ھے ، اس وقت اس مسئلے کے بارے میں علماء شیعھ کے نظریات یوں ھیں:
۱۔ بعض اس کو فی نفسھ (اپنے طور پر) جائز جانتے ھیں۔
۲۔ بعض اس کو سطحی طور پر اور محدود طریقے سے جائز جانتے ھیں۔
۳۔ تیسرا گروه اس عمل کی اصل کواولیٰ کے طور پر حرام جانتے ھیں۔
اس سوال کا جواب واضح ھونے کے لئے بعض نکات کی طرف توجھ کرنا ضروری ھے۔
الف : کلوننگ کا طریقھ کار۔
کلوننگ کا طریقھ کار مندرجھ ذیل مراحل میں ھوتا ھے:
۱۔ ماده پستاندار کا ایک بیضک( انِڈے) کو لینا۔
۲۔ بیضک کا مرکزی حصھ (نیوکلیس) کو باھر نکالنا اور نیوکلس کے بغیر بیضک حاصل کرنا۔ ( بیضک، انسان میں ۲۳ عدد کروموزومز کے بغیر اور جنیٹک (وراثت) کے بغیر ھوتا ھے لیکن سیٹوپلاسم میں بعض وراثتی خصوصیات ھوتی ھیں )۔
۳۔ جسم کے ایک خلیھ کو لینا اور اس کے نیوکلس کو باھر نکال کر اسے بغیر نیوکلس کے بیضک میں لے جانا۔ ( بیضک کو دوباره بنانا ) اس طرح بیضک ، سب ضروری کروموزوموں (۴۶ عدد) کو ایک ھی جنس سے رکھتا ھے اور وه سب جسمانی خلیے سے لئے جاتے ھیں۔
۴۔ دوائیوں کے ذریعے یا برقی توانائی سے بیضک کو متحرک کرنا که ان کی تعداد بڑھ جائے۔
۵۔ جب بیضک لیبارٹری میں چند خلیوں کی تعداد تک پھنچ جاتا ھے، تو مناسب بچھ دانی یا متبادل بچھ دانی جو پھلے سے اس کام کے لئے نظر میں رکھی گئی ھے کے اندر منتقل کیا جاتا ھے۔
۶۔ مناسب مدت گزرنے کے بعد، بیضک ایک مکمل جنین میں تبدیل ھوتا ھے اور معین وقت پر ولادت پاتا ھے۔ وراثت اور جنٹیک کے لحاظ سے بچھ بیضک " ڈی، اِن ، ای " کے لحاظ سے تقریبا %۹۷ اس سے مطابق ھوتا ھے کھ جس کے خلیھ سے نیوکلس لیا گیا ھو۔ اور بچھ کی جنسیت بھی اس کے تابع ھے [1]
ب) کلوننگ کے لئے مختلف صورتیں متصور ھیں من جملھ:
۱۔ حیوانات کے درمیان کلوننگ، چاھے وه جنسیت میں مشترک ھوں یا نھیں۔
۲۔ نباتات اور حیوانات میں کلوننگ۔
۳۔ حیوانات اور انسان کے درمیان کلوننگ۔
۴۔ انسان کے افراد کے درمیان جس کے مختلف مفروضے ھیں، من جملھ ، دو جوڑوں کے درمیان یا غیر جوڑوں کے درمیان، بچھ دانی والے نے شادی کی ھو یا نھیں۔۔۔ وغیره، جن میں سے ھر ایک کےلئے خاص شرعی حکم موجود ھے۔ [2]
جس نکتھ سے غافل نھیں ھونا چاھئے وه انسان میں کلوننگ کے غیر مترقبھ اثرات ھیں جو کھ مندرجھ ذیل ھیں؛
۱۔ نسب کا کھو جانا۔
۲۔ رشتوں میں ابھام پیش آنا۔
۳۔ خاص موارد میں ماں اور باپ کا نھ ھونا۔
۴۔ نفقھ اور میراث میں ابھام ۔
۵۔ ناقص الخلقت انسان کا پیدا ھونا۔
۶۔ انسانوں میں نئے اورعجیب و غریب امراض کا پیدا ھوجانا۔
۷۔ انسانوں کے درمیان فرق ھونے کی مصلحت اور حکمت کے ساز گار نھ ھونا۔
۸۔ شادی بیاه اور گھریلو بنیادوں کا نابود ھونا۔
۹۔ ماں اور ممتا کا مفھوم ختم ھونا۔
۱۰۔ نامشروع روابط کا ایجاد ھونا۔
۱۱۔ ھمجنس پرستی کا رائج ھونا۔
۱۲۔ مجرموں کا سوء استفاده کرنا، اعتقادی اور فقھی شبھات کا ایجاد ھونا۔ [3]
یھ اثرات مذھبی سماج جیسے عیسائیت اور مسلمانوں کی پریشانی اور اضطراب کا سبب بنے یھاں تک کلوننگ پوری صدی کی سب سے بڑی چنوتی(للکار) بن گئی، پوپ نے اپنے ایک بیان میں انسانی کرامت کو خطرے میں ڈالنے کی وجھ سے اسے حرام قرار دیا، اھل سنت حضرات نے اس سلسلے میں تقریبا دس سے زیاده کانفرنسیں بلائیں ، اور اس کام کے حرام ھونے پراجماع کیا، [4] اھل سنت میں صرف ڈاکٹر محروس اور عراق میں فقھ حنفی کے فقیھ نے اس کام کو جائزمانا ھے۔[5]
بعض شیعھ فقھاء نے اس سلسلے میں پیدا ھوئے، شبھات اور اشکالات کا جواب دیا ھے اور ممکنھ غلط نتائج کو اس کام کے جائز ھونے میں رکاوٹ نھیں جانا ھے۔[6]
بھر حال کلوننگ کے بارے میں شیعھ فقھاء کے درمیان مندرجھ ذیل نظریات موجود ھیں۔
۱۔ فی نفسھ جائز ھونا۔
۲۔ فردی اور محدود سطح پر جائز ھونا۔
۳۔ اولیت کے طور پر حرام ھونا [7]
الف ) فی نفسھ حرام ھونا :
بعض فقھاء اور صاحب نظر حضرات نے انسانی کلوننگ کے حرام ھونے پر دلیل نھ ھونے کی وجھ سے اور قاعده حِل (کل شیء لک حلال )۔۔ اور اصل اباحھ کے مطابق، انسانی کلوننگ کو جائز قراردیا ھے۔
حضرت آیۃ اللھ سیستانی ، آیۃ اللھ موسوی اردبیلی ، آیۃ اللھ فاضل لنکرانی، آیۃ اللھ علامھ فضل اللھ ، آیۃ اللھ محمد مومن وغیره نے اس سوال کھ " کیا جدید علمی طریقوں سے لیبارٹری میں انسان کی کلوننگ جائز ھے؟" کے جواب میں فرمایا: " فی حد ذات، ( فی نفسھ) اس میں کوئی اشکال نھیں ھے" [8]
بعض دوسرے فقھاء [9] اس کام کے مباح ھونے کے علاوه اس سلسلے میں پیدا شده ابھامات اور سوالات جو دوسروں کے نزدیک ، حرام ھونے کا سبب بنے تھے مفصل طور پرجواب دیا۔ [10]
بعض دوسروں نے کھا ھے که اگر یھ کام مفاسد کا سبب بنے تو انسان کی کلوننگ ان مفاسد کو مد نظر رکھه کر ثانوی طور پر حرام ھوگی، حضرت آیۃ اللھ سید کاظم حائری ، آیۃ اللھ مکارم شیرازی نے اس نظریه کی حمایت کی ھے۔ [11]
ب ) محدود طورپر جواز
بعض علماء نے " اصل اولیھ " کے استناد سے ، انسانی کلوننگ کو جائز جانا ھے، لیکن ان کا نقطئه نظر' یھ ھے کھ وسیع طور پر کلوننگ بعض مشکلات کا سبب بنتی ھے، شیخ حسن جواھری نے یھ نظریه بیان کیا ھے که انھوں نے نھ صرف اس کام کو فردی اور محدود طور پر جائز جانا ھے۔ بلکھ اس کام کے حرام ھونے کے دعوی کرنے کو بھی حرام کیا ھے۔ یعنی کسی کو یھ حق حاصل نھیں کھ ایک مشروع کام کو حرام جانے ،اور بغیر کسی دلیل کے اس کے حرام ھونے کا فتوی دے۔ [12]
ج ) کلوننگ کا حرام اولی ھونا۔
حضرت آیۃ اللھ تبریزی ، لبنان کے علماء میں مرحوم علامھ محمد مھدی شمس الدین نے انسانی کلوننگ کو حرام جانا ھے بلکھ حیوانوں میں بھی اس کو حرام جانا گیا ھے۔[13]
[1] دفتر تبلیغات اسلامی ، کاوشی نو در فقھ، شبیھ سازی انسن از دیدگاه فقھای شیعھ۔ ص ۶۔
[2] سید علی موسی سبزواری، الاستنساخ بین التقنیۃ و التشریع۔ ص ۴۳۔
[3] ھفتھ نامھ افق حوزه سے اقتباس، نمبر ۹۴، اور شبیھ سازی انسن از دیدگاه فقھای شیعھ۔
[4] ایضا ۔
[5] ایضا
[6] رجوع کریں : الاستنساخ البشری، و فتاوی طبیۃ۔ سید محمد حکیم۔
[7] دفتر تبلیغا اسلامی ، کاوشی نو در فقھ، شبیھ سازی انسان از دیدگاه فقھای شیعھ۔ ص ۳۲۔
[8] ایضاً۔
[9] آیۃ اللھ سید محمد سعید حکیم۔
[10] دفتر تبلیغات اسلامی، کاوشی نو در فقھ، شبیھ سازی انسان از دیدگاه فقھای شیعھ۔ ص ۳۲۔
[11] ایضا ً
[12] ایضاً۔
[13] ایضاً