Please Wait
9768
ان بزرگوں (پیغمبر اور امام) کا احترام کرنا ، انهیں وسیله بنانا ان سے رجوع کرنا اور حاجتیں طلب کرنا ،اگر اس قصد سے هو که یه حضرت هماری حاجتیں پوری کرنے میں خدا کے ساﺗﻬ ساﺗﻬ یا اس کی ذات سے الگ مستقل اور بے نیاز هیں یه قصد اور سوچ شرک اور توحید افعالی (یعنی فاعلیت میں ساری مخلوق خدا کی محتاج هے اور خدا هر ایک سے بے نیاز هے)
اور توحید ربوبی (یعنی مدبر اور رب صرف خدا هے اور سارے فرشتے انبیاء اور دیگر طبیعی اسباب خدا کے حکم کی تعمیل کرنے والے هیں) کے خلاف هے اور یه افعالی و ربوبی شرک شمار هوگا۔
لیکن اگر یهی رجوع کرنا ،وسیله بنانا اور احترام کرنا اس لیئے هوکه :
الف: یه خداوند عالم کے حکم کی اطاعت هے ۔
ب: ان حضرات کے اس حق کی ادائگی هے جو ان کے فیض تشریعی تکوینی کا وسیله هونے کی وجه سے همارے اوپر هے ۔
ج: ان حضرات کا نمونه قرار دینا اور انهیں الله کی ذات سے الگ کیئے بغیر ان کی عنایت سے استفاده کرنا هے۔ یه چیزوں الله کے قاضی الحاجات هونے اور توحید افعالی و توحید ربوبی کے منافی نهیں هیں،اس لیئے که ان بزرگوں کی حاجت روائی،تدبیر اور فاعلیت الله کے قاضی الحجات ،اور اس کی فاعلیت و ربوبیت کے ذیل میں هے نه که الله کے برابر اور مقابله میں که جسے شرک شمار کیا جائے۔
لهذا خداکے علاوه کسی اور سے حاجت طلب کرنے میں شرک کا معیار انسان کی نیت هے پس اگر کوئی شخص ان سے متوسل هو اور ان کے لیئے الویّت و ربوبیت کا قائل هو اور انهیں الله کی ذات سے الگ اور مستقل سمجھے ؛ تو یه توسل اس عقیده کے ساﺗﻬ شرک محسوب هوگا ۔
لیکن اگر یهی توسل الله کے حکم اور فرمانبرداری اور ان حضرات کی الله کے نزدیک شان و منزلت سے استفاده کرنے کے لیئے هوتا که یه شخصیتیں انسان کی ضرورت کو الله سے طلب کریں یا الله کے اذن سے انسان کی حاجت روائی کریں تو یه چیز نه یه که شرک نهیں هے بلکه اس سے توسل کرنے والے کو ثواب بھی ملے گا کیونکه اس نے الله کے حکم کو انجام دیا هے ۔ر
انسان دو پهلووں کا حامل هے ،یعنی ملکوتی و معنوی، روح اور مادی اور دنیوی جسم کا مجموعه جو سراپا نیازمند اور محتاج هے اور چونکه اس کے لیئے دو میدان هیں لهذا افراط و تفریط کے بغیر دونوں میدانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا پڑے گا تا که صحیح و سالم ره کر اپنی زندگی بسر کر سکے اور ترقی و بلندی کے راسته کو اپنا کر خود کو واقعی و حقیقی سعادت ( خلافت الهی کے منصب ) تک پهونچائے ۔
اور چونکه خداوند عالم نے انسان کو اک خاص مقصد کے لیئے پیدا کیا هے اور اس کے وجود کے هر پهلو سے باخبر تھا لهذا اس کی پیدائش سے پهلے یا پیدائش کے وقت اس نے اس کی مختلف ضرورتوں کے پورا هونے کا زمینه بھی فراهم کردیا هے ۔
الله کی مشیت بھی یه هے که انسان طبیعی طور سے اپنے اختیارسے مهیا شده امکانات سے استفاده کرتے هوئے اپنے جسم و روح کی سلامتی اور سعادت حاصل کرے؛ورنه خداوند عالم روز اوّل سے هی انسان کو جسمانی لحاظ سے کامل الخلقت پیدا کرسکتا تھا اور تدریجی کمال کی ضرورت نه هوتی ۔ جیسے زمین و آسمان کی خلقت اسی طرح هے اور روحانی اعتبار سے بھی اس طرح کامل پیدا کرسکتا تھا که اطاعت و عبادت اور الله کی بارگاه میں حضور کے لحاظ سے کوئی کسر باقی نه رهتی جسے اس نے فرشتوں کو اس طرح پیدا کیا هے ۔ مگر انسان کو دیگر مخلوقات پر برتری اسی سے حاصل هوئی هے که وه جسمانی اور روحانی ضرورتوں کے با وجود اتنا آگے بڑھتا هے که فرشتون سے بھی بلند اور برتر هوجاتا هے ۔
ایک مختار انسان کو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیئے زمین و آسمانیں الله کی نعمتوں کے وسیع دسترخوان سے اچھی طرح فائده حاصل کرنا چاهیئے تا که صحیح و سالم اور محفوظ رهے اور اپنی روحانی ضروریات کو پوتو کرنے کے لیئے شریعت کے خوان سے استفاده کرے تا که اپنی ملکوتی روح کو ملکوت اعلیٰ سے ملا دے اور اس کی ضرورت کو پورا کرے۔
انسان کی ضروریات کو پورا کرنے میں تکوینی اسباب کی قابلیت نیز انسان کے اس سے روز و شب فائده حاصل کرنے میں کوئی شک نهیں هے اورچونکه انسان اپنی پیدائش سے هی ان اسباب سے مانوس هوتا هے لهذا زیاده تر دینداروں کے ذهن میں یه بات نهیں آتی که جسمانی ضروریات کو پورا کرنے میں ان اسباب اور وسائل سے استفاده کرنا شرک یا الله کی ملکیت میں بے جا تصرف هو سکتاهے ۔
حکیم پروردگار عالم نے انسان کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیئے بھی دین و شریعت کی شکل میں ایک اور خوان بچھا رکھا هے اور عقیده ،عبادت و رتبیت کی سالم غذاووں کو انهیں میں سے ﻜﭽﮭ افراد (انبیاء علیهم السلام ) کے ذریعه ان کے اختیار می قرار دیا هے اسی لیئے اس حضرات کو تشریعی فیض کا ذریعه کها گیا جاتا هے جب که خود انبیاء بھی ان حدود کی رعایت کرنے پر مامور هیں تا که اس طرح اپنی روحانی ضرورتوں کو پورا کرکے عالم ملکوت (کوجو غیبت میں هے اور ان کے حواس و مشاهده ابدتر هے) سے متصل هو سکیں اور شب و روزمیں کم از کم ﻜﭽﮭ دیر کے لیئے (روزانه کی عبادت کی شکل میں ) الله سے رابطه رکھیں ۔
ان میں سے ﻜﭽﮭ ایسے بھی لوگ هیں جو الله کے تشریعی خوان کرم سے استفاده کرنے میںدوسروں سے آگے پڑھ جاتے هیں اور دوسروں سے تیز و محکم سے عالم ملکوت اس طرح متصل هوجاتے هیں جیسے عالم طبیعت سے اپنے کو منقطع کرکے خود ملکوتی هوگئے هیں اور پھر انهیں حضرات میں سے ﻜﭽﮭ ایسے بھی هیں جو دیگر ساتھیوں سے آگے بڑھ جاتے هیں اور خلافت الٰهی کے درجه تک پهنچ جاتے هیں اور خود عمّال الله (الله کا کام کرنے والے) بنکر فیض تشریعی کا واسطه بن جاتے هیں ۔ یعنی عالم ملکوت اور قافله سے دور ره جانے والوں کے درمیان واسطه بن جاتے هیں ۔
اسی صورت میں قافله سے ره جانے والے مجبور هیں که انهیں وسیلوں کے ذریعه عالم معنوی سے استفاده کریں اور اپنی حاجتیں پوری کریں ۔اور اس جگه سے یه شبهه وجود میں آیا هےکه ان حضرات سے توسل اور حاجت طلب کرنا توحید افعالی و توحید ربوبی کے برخلاف هے ۔
مگر جس طرح مادی امکانات سے استفاده کرکے جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنا شرک نهیں هے اور اس لیئے که خداوند عالم نے خود تمام نعمتوں کو انسان کے لیئے پیدا کرکے اس کے حواله کردیا هے [1] اور اجازت دی هے که انسان ان نعمتوں کو صحیح طریقه (جسے شریعت نے بتایا هے) سے استعمال کرے اور هر موحّد انسان یه جانتا هے که یه چیزیں الله کی پیدا کی هوئی نعمتیں هیں جو اس سے وابسته هیں؛ خود مستقل اور واجب الموجود نهیں هیں،اس طرح ان بزرگ هستیوں سے متمسک هوکر انهیں وسیله بنانا ،ان کا احترام کرنا اور ان سے حاجت طلب کرنا بھی توحید افعالی و توحید ربوبی کے خلاف نهیں هے اور نه هی صرف خدا کے قاضی الحجات هونے کے خلاف هےاس لیئے که ان بزرگوں سے توسل اور تمسک میں ان حضرات کو خداوند عالم کے برابر یا اس کی ذات سے الگ اور مستقل فرض نهیں کیا جاتا ۔
بلکه هر آگاه و عالم انسان ان حضرات کی فاعلیت کوخداوند عالم کی تدبیر اور فاعلیت کے ذیل میں سمجھتا هے بلکه دنیا کی ساری مخلوق کی طرح انهیں بھی الله هی کی ذات کا اسطرح محتاج سمجھتا هے که الله کے لطف و کرم کے بغیر ان کا کوئی وجود هی نهیں هے ،چه جائے که وه فاعلیت یا حاجت روائی کے حامل هوں۔
اسی لحاظ سے ان کی فاعلیت اور ان کے قاضی الحاتات هونے کا عقیده خداوندعالم کی فاعلیت اور قاضی الحاجات هونے کے ذیل میں هے جو شرک کا سبب نهیں بن سکتا۔[2]
مگر سوال یه پیدا هوتا هے که خداوند عالم نے همیں ان حضرات کی طرف رجوع کرنے کا حکم کیوں دیاهے اور هم معنوی دنیا سے فائده اٹھانے کے لیئے ان وسیلوں کے کیوں محتاج هیں ؟ اس کے چند اسباب هیں :
1 ۔ یه حضرات بندوں تک الله کے فیض کے پهنچنے کا وسیله اور ساری کائنات کی مخلوقات پر الله کی رحمت نازل هونے کا ذریعه هیں ۔ یهاں تک که اگر یه هستیاں نه هویئں تو زمین و آسمان اور ان کے اندر جو چیزیں هیں پیدا نه کی جاتیں جیسا که معروف و مشهور حدیث قدسی میں ارشاد هوتا هے که(اے پیغمبر اگر تم نه هوتے تو میں افلاک کو پیدا نه کرتا اور اگر علی نه هوتے تو تمهیں پیدا نه کرتا اور اگر فاطمه نه هوتیں تو تم دونوں کو خلق نه کرتا اس لیئے که تم تینوں افراد (جو ایک دوسرے کو کامل کرنے والے هو) کائنات کی پیدائش کا سبب هو۔[3]
لهذا فیض کے سرچشمه (خدا) تک پهنچنے کے لیئے انهیں وسیلوں سے استفاده کرنا پڑے گا تا که الله کی نعمتوں سے محروم نه هوں ؛اسی لیئے هم دعائے ندبه میں پڑھتے هیں : (کهاں هے الله کا وه دروازه جس سے وارد هوتے هیں )
2۔ چوں که الله که ان مقرب بندوں نے اپنے آپ کو الٰهی صفات سے آراسته کر رکھا هے لهذا ان کی طرف دیکھنا اور متوجه هونا گویا خداوند عالم کی طرف متوجه هونا هے اس لیئے کی ان سے محبت و انس هر چند مصیبتوں میں هی انسان کو الله اور اس کی نشانیوں کی یاد دهانی کراتی هے اس لیئے هم دعائے ندبه میں پڑھتے هیں ۔(( کهاں هے خداوند عالم کا وه چهره جس کی طرف اولیاء الٰهی متوجه هوتے هیں۔))
3۔چوں کی یه حضرات الله کے مقرب بندے اور فیض الٰهی کا ذریعه هیں لهٰذا ان کی دعائیں مستجاب هوتی هیں اور ان کی شفاعت الله کی بارگاه میں قبول هوتی هے اس لیئے دعائے ندبه کو جاری رکھتے هوئے هم پڑھتے هیں (( کهاں هے وه مضطر که اگر دعا کرتا هے تو اس کی دعا مستجاب هوتی هے))
اور چوں که یه کریم و سخی هیں لهٰذا اگر مصلحت هوتوکسی بھی سائل کو محروم نهیں کرتے اور نه هی اسے خالی هاﺗﻬ واپس کرتے هیں ۔
اس چیز کا ان حضرات کے زمانه میں رهنے والوں اور ان کی زیارت کرنے والوں نے بارها مشاهده اور تجربه کیا هے اسی لیئے ان سے مخاطب هوکر کها جاتا هے که ((آپ کی عادت نیکیاں کرنا اور آپ کی فطرت کرامت هے اور آپ کی شان حق ،صداقت اور مهربانی هے))[4]
4 ۔ جن لوگوں نے کمال کے درجوں کو طے نهیں کیا هے ان کے لیئے عالم غیب سے براه راست رابطه قائم کرنا مکن نهیں هے لهٰذا ایسے لوگوں کو وسیلوں سے استفاده کرنا پڑے گا جیسا که خداوند عالم نے حکم دیا هے((اے ایمان والوں! تقویٰ اختیار کرو اور الله تک پهنچنے کے لیئے وسیله تلاش کرو))[5]
بهت سی روایتوں میں اهلبیت(علیهم السلام) الله کا وسیله اور ((ایمان محکم)) کے عنوان سے پهنچوائے گئے هیں تا که ایک مومن انھیں پهچان کر ان سے متمسک هوجائے۔[6]
جیسا که هم دعائے ندبه مین پڑھتے هیں (( کهاں هے وه که جو زمین و آسمان کے در میان اتصال کا سبب هو؟!))
5۔ ان حضرات سے رجوع و توسل ؛ ان کی معرفت ،ان سے دوستی ،حاجت کی تکمیل اور ان سے مودت کا سبب هوتا هے اور ان سے محبت و مودت خود انسان کی هدایت ،تربیت اور بزرگی کا سبب هوتی هے ۔ جب که یه حضرات لوگوں سے اور ان کے رجوع کرنے اور توسل کرنے سے بے نیاز هیں اس لیئے که یه الله کے فضل و کرم سے اپنے مقصد تک پهنچ چکے هیں ۔
6۔ لوگون کو اولیاء الٰهی کی طرف متوجه کرنا ان حضرات کی زحمتوں کی جزاء هے جو انھوں نے راه خدا میں برداشت کی هیں ۔ جیسا پیغمبر سے خطاب هورها هے (( اور رات کے ایک حصه میں خدا سے راز و نیاز کے ساﺗﻬ بیدار رهیں امید یه هے که عنقریت آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود، دنیا و آخرت کی شفاعت تک پهنچادے ))۔[7]
7۔ ان مقدس حضرات سے توسل ایک طرف دوسرے لوگوں کے ان کے نقش قدم پر چلنے کا شوق پیدا کرتا هے تو دوسری طرف زاهد و پرهیزگار ،عابد اور دوسرے تمام لوگوں سے جو الله کی جانب سیر کا دعویٰ کرتے هیں غرور و تکبر کو ختم کردیتا هے ساﺗﻬ ساﺗﻬ ریا کاروں اور مکاروں کی دوکانیں میں رکاوٹ بنتا هے ۔
8۔ایک کامل انسان کا مرتبه فرشته سے کهیں برتر هے اس کے لیئے که :
۱۔ فرشته دنیا اور آخرت میں صالح بندے خدمت کرتا هے۔
۲۔ فرشتوں کی فاعلیت جبری هے جوان کے لیئے کوئی امتیاز شمار نهیں هوتی ۔
۳۔ شب معراج پیغمبر اکرم جبریئل سے بھی آگے بڑﻬ گئے تھے۔[8]
جب فرشتے خداوند عالم کی فاعلیت کے ذیل میں بعضی امور میں تدبیر کر سکتے هیں تو انسان جس نے خود دیکھا ایسا بنایا که خدا تک پهنچ گیا ایسا کیوں نهیں هو سکتا ۔
9۔ اهم بزرگ اور حکیم شخصیتوں کی سیرے یه هے که چھوٹے چھوٹے کام جنھیں ان سے نیچے کے افراد انجام دے سکتے هیں وه انھیں کے حواله کر دیتے هیں که ان سے رجوع کرنے والوں کا جواب ان کے زیر نظر رهکر دیں جس سے خود ان کی خصوصی تربیت هو جائے اور بزرگوں کی زحمتوں کا صله بھی مل جائے ساﺗﮭ ساﺗﮭ دوسرے لوگ ان مقام سے آشنا هو کر آسانی سے ان سے رابطه قائم کریں اور ان سے انس و محبت کریں ۔
البته رجوع کرنے والے یه بات جانتے هیں که یه وسیله الله تعالیٰ کے شریک اور برابر نهیں هیں اور اس (الله ) کی اجازت کے بغیر ﻜﭽﮭ بھی کرنے والے نهیں هیں ۔
روح گفتگو یه هے که (غیب سے متصل هونے ،اپنی ترقی ، دینی و دنیاوی ،جسمانی و معنوی حاجتوں کو پورا کرنے اور امر الٰهی کی انجام دهی کے لیئے هم اولیائے الٰهی) کی شناخت ،ان سے توسل کا مطلب بارگاه ایزدی کے وسیلے سے الله کی محکم رسی اور اسباب سے توسل کرنا هے ۔ وه وسیلے جو اپنے تمام وجود میں خدا کے محتاج هیں ۔ جن کی فاعلیت اورجن کا قاضی الحاجات هونا الله کی فاعلیت اور قاضی الحاجات هونے کے ذیل میں هے اور اس طرح کا توسل اور رجوع کرنا شرک نهیں هے اس لیئے که مستقل طور سے قاضی الحجات صرف اور صرف خداوند عالم هے ۔
تفصیلی مطالعه کے لیئے منابع:
1۔ مکیال الکلام ،ج ۱،۲۔ مولف سید محمد تقی موسوی اصفهانی ۔مترجم سید مهدی حائری کاظمی
2۔ آموزش عقائد ، ج ۱،۳ ۔ مولف محمد تقی مصباح یزدی
3۔ معارف قرآن ، ج ۱،۳ ۔ مولف محمد تقی مصباح یزدی
4۔ معارف اسلامی درآثار شهید مطهری ، امور اساتید معارف ۔ صصص ۹۰،۱۱۰،۲۵۰ ،۔۔۔
اسی طرح کلام اور عقائد کی اور بھی کتابوں میں شفاعت ،توحید افعال اور امامت کی بحث کا مطالعه کیا جائے ۔
[1] سوره جاثیه ،آیت ۱۳،۱۲؛ سوره لقمان ،آیت ۲۰،۔ ۔ ۔ ۔
[2] انسان کی خواهش اور الله کی مشیت کے عنوان سے سوال نمبر ۸۰ و سوال نمبر ۹۵ انسان کے اختیارات،
سوال نمبر ۵۱،۲۱۷ ۔ واجب الوجود کے ساﺗﮭ ممکن الوجود کا فرض کرنا۔
[3] منقول از برناس صومعه سرائی ،مهدی، شب قدر کیا هے ، م نشر کوثر غدیر ،ج۲ ، صص ۷۹،۸۱ ۔
[4] زیارت جامعه کبیره۔
[5] سوره مائده ،آیت ۳۵ ، سوره آل عمران، آیت :۱۰۳ ،سوره اسراء ، آیت ۵۷ ۔
[6] ترجمه مکیال المکارم ،مولف سید مهدی حائری ج ۱ ،صص۴۲۵ ،۶۴۹ ،اوپر کی تین آیتوں کی تفسیر کی کتابیں ۔
[7] سوره اسراء ،آیت ۷۹۔
[8] سوره نازعات،آیت ۵ ۔