Please Wait
9807
زرارہ، ائمہ اطہار{ع} کے صحابیوں میں سے ہیں اور ائمہ{ع} کے پاس ان کی ایک عظیم الشان منزلت تھی۔ وہ اصحاب اجماع شمار کیے گیے ہیں کہ ان کی وثاقت اور سچائی پر ائمہ{ع} کے صحابیوں میں اجماع و اتفاق پایا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی مذمت میں کئی روایتیں نقل کی گئی ہیں، لیکن مجموعی طور پر روایات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ائمہ اطہار{ع} کے ایک عظیم ترین صحابی تھے۔
زرارہ بن اعین شیبانی، امام باقر{ع} اور امام صادق{ع} کے سب سے بڑے صحابیوں میں سے ہیں کہ انہوں نے ان دو اماموں سے روایت نقل کی ہے[1]۔
زرارہ کے خاندان کا اصلی وطن روم تھا اور ان کا باپ روم کا باشندہ تھا اور بنی شیبان میں غلامی کی زندگی بسر کر رہا تھا، چونکہ اس نے قرآن مجید سیکھا تھا ، اس لیے آزاد کیا گیا[2]۔
بقول شیخ طوسی: اعین کا خاندان، ایک مشہور شیعہ خاندان تھا، اس خاندان نے اپنے پیچھے بہت سی روایتیں، کتابیں اور اصول چھوڑے ہیں[3]۔
زرارہ کے اوصاف کے بارے میں نجاشی یوں لکھتے ہیں: " وہ اپنے زمانہ کے شیخ اور بڑے صحابی تھے، وہ ایک بڑے قاری فقیہ، متکلم، شاعر اور ادیب تھے اور ان میں تمام نیک صفات پائے جاتے تھے۔ زرارہ جو کچھ کہتے اور نقل کرتے ہیں وہ اس میں سچے ہیں[4]۔"
وہ اصحاب اجماع شمار کے گیے ہیں، کہ ان کی وثاقت اور سچائی کے بارے میں ائمہ{ع} کے اصحاب میں اجماع اور اتفاق پایا جاتا ہے[5]۔
"کشی" نے اپنی کتاب میں ،ابن قولویہ سے اور اس نے امام کاظم{ع} کی سند سے ایک روایت نقل کی ہے کہ" قیامت کے دن آواز آئے گی کہ محمد بن عبداللہ{ص} کے وہ اصحاب کہاں ہیں جو اپنے عہد و پیمان پر باقی رہے ہیں اور عہد شکنی نہیں کی ہے؟ پس، سلمان، مقداد اور ابوذر کھڑے ہوں گے"، اس کے بعد امام{ع} امام باقر{ع} کے اصحاب تک نام لیتے ہیں اور فرماتے ہیں:" آواز آئے گی کہ امام باقر{ع} اور امام صادق{ع} کے وہ اصحاب کہاں ہیں جنہوں نے عہد شکنی نہیں کی ہے؟ اس کے بعد کچھ لوگ کھڑے ہوں گے، ان میں سے زرارہ بھی ہوں گے[6]۔"
لیکن بعض روایتوں میں زرارہ کے بارے میں کچھ ایسے مطالب نقل کیے گیے ہیں ، جن کے مطابق امام{ع} نے ان کی مذمت کر کے ان سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔
ابو بصیر، امام صادق{ع} سے آیہ شریفہ "الذين آمنوا و لم يلبسوا إيمانهم بظلم"[7] کے بارے میں پوچھتے ہیں اور حضرت{ع} جواب میں فرماتے ہیں: " اے ابو بصیر؛ مجھے اور تجھے اس ظلم سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئیے، اس آیت کے مصداق ، زرارہ، ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں[8]۔
زرارہ کے بارے میں امام صادق{ع} کے اس نظریہ کے بعد، خود امام{ع} نے سختی سے انکار کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ جو روایت زرارہ کی مذمت میں صادر ہوئی ہے وہ زرارہ کی جان کے تحفظ کے لیے تھی۔
عبداللہ بن زرارہ امام صادق{ع} سے یوں نقل کرتے ہیں کہ امام{ع} نے اس سے فرمایا: " اپنے باپ {زرارہ} کو میرا سلام پہنچانا اور اس سے کہنا کہ جو اعتراضات میں اس کے بارے میں کرتا ہوں، حقیقت میں وہ اس کے دفاع کے لیے ہیں، کیونکہ ہم جس شخص کی تعریف و تمجید کرتے ہیں، ہمارے دشمن اس کے خلاف حملہ کر کے اسے اذیت پہنچاتے ہیں اور ممکن ہے اسے قتل کر ڈالیں۔ میں نے اس کی مذمت کی ہے تاکہ اس نے جو وابستگی ہم سے پیدا کی ہے، اس کی وجہ سے لوگ اور اہل بیت{ع} کے دشمن اسے اذیت نہ پہنچائین۔ خدا کی قسم زرارہ میرے اور میرے باپ کے بہترین دوست ہیں۔[9]"
زرارہ کے بارے میں بیان کی گئی مدح و ذم کی روایتوں کے بارے میں تعارض کے پیش نظر، تمام علماء اور فقہا زرارہ کی شخصیت کو عظیم اور محترم جانتے ہیں اور انہیں ائمہ اطہار{ع} کے برترین اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔علامہ حلی ان دو قسم کی روایتوں کو جمع کرنے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: "کشی کی نقل کی گئی مذمت سے متعلق روایتوں کے پیش نظر { اور ان کو مدح و ستائش کی روایتوں سے جمع کر کے} اس شخص کی روایتیں میرے نزدیک قابل قبول ہیں۔[10]"
علامہ محسن امین نے اپنی کتاب میں بہت سے علما کا نام لیا ہے، جنہوں نے زرارہ کو مذکورہ دو قسم کی روایتوں کے پیش نظر عظیم جانا ہے اور ان کی ستائش کی ہے[11]۔
آخر میں ہم یاددہانی کرتے ہیں کہ اگرچہ زرارہ ائمہ طاہریں{ع} کے موثق صحابیوں میں سے ہیں، لیکن ایک روایت کو قبول کرنا متعدد امور پر منحصر ہوتا ہے، من جملہ اگر اس روایت کو قبول کرنا ہو تو، متن اور روایت کے حدود سے متعلق مسائل کے علاوہ، اس کی سند میں موجود تمام افراد موثق اور قابل اعتماد ہونے چاہئیں، اور سند میں صرف ایک موثق فرد کے موجود ہونے پر اس روایت کے صحیح ہونے کا حکم نہیں کیا جا سکتا ہے، ممکن ہے کسی جھوٹے شخص نے کسی روایت کو زرارہ جیسی شخصیتوں سے نسبت دی ہو، اس لیے سند میں صرف زرارہ کے قابل اعتماد ہونے کی بنا پر اس روایت اور اس کی مشابہ روایتوں کو قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔
[1] طوسی، محمد بن حسن، رجال طوسي، ص 337، انتشارات حیدریه، نجف، 1381ھ.
[2]عاملی، محسن امین،أعيانالشيعة، ج7، ص46، دار التعارف، بیروت، 1406ھ.
[3]طوسی، محمد بن حسن، فهرست طوسي، ص 209، المکتبه المرتضویه، نجف، بدون تاریخ.
[4]نجاشی، احمد بن علی، رجال نجاشي، ص 175، انتشارات اسلامی، قم، 1407ھ.
[5]کشی، محمد بن عمر، رجال كشي، ص 238، دانشگاه مشهد، 1348 ھ ش.
[6]رجال كشي، ص 9، {خلاصہ کے ساتھ}.
[7]انعام، 82.
[8]رجال كشي، ص 146.
[9]رجال كشي، ص 138.
[10]حلی، حسن بن مطهر، الخلاصة، ص76، دار الذخائر، قم، 1411ھ.
[11]أعيانالشيعة، ج7، ص 51.