Please Wait
7381
دین اسلام ہمیشہ ایک کامل اور عالمی دینی ہونے کی حیثیت سے زندگی کے تمام پہلووں پر دھیان دیتا ہے اور دنیا و آخرت کی ترقی کی تمام راہوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ جسمانی تندرستی کی قدر و قیمت بھی اسلام کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ جو ورزشیں انسان کے لئے مفید ہیں اسلام ان کا تایید کرتا ہے۔
وہ تمام چیزیں جو اخلاق عمومی میں پائی جاتی ہیں اور ورزش کے میدانوں عملی ہو سکتی ہیں ۔ ان پر عمل ہونا چاہئے بعض وہ اخلاقی فرائض جنھیں ایک ورزش کار کو ورزش کے میدان میں برتنا چاہئے وہ یہ ہیں: جہاد با نفس امارہ، درگزر کرنا جوانمردی کے ساتھ مقابلہ۔۔۔ ۔
جسم و روح کی سلامتی ایسے امور میں سے ہے جسے انسان ہمیشہ چاہتا تھا اور ہے۔ دین اسلام ہمیشہ ایک کامل اور عالمی دین ہونے کی حیثیت سے ایک سالم زندگی کے تمام پہلووں کے بارے میں سوچتا ہے اور دنیا و آکرت کی ترقی کی تمام راہوں مدنظر رکھتا ہے، وہ تندرستی کی قدر بیان کرتا ہے، صحت کی حفاظت کو منع جانتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ورزش کی بھی ایک ضرورت کی حیثیت سے اسلام نے تایید کی ہے۔
آج ورزش لوگوں کی زندگی میں ایک اہم کردار رکھتی ہے۔ لا کھوں انسان اس میں مشغول ہیں اور اس سے کئی گنا افراد کھیلوں کے مختلف پروگراموں کے تماشائی اور طرفدارہیں۔ ورزش بعض حالات میں قول اور سماجی اتحاد کا باعث ہوتی ہے اور اس میں رائج اچھائیاں اور برائیاں قولوں میں رائج اچھائیوں اور برائیوں کو ظاہری کرتی ہیں۔[1]
اخلاق ورزش اخلاق کے ان عملی موضوعات میں سے ہے جو اخلاق کے فیصلوں کو پرکھنے نیز اخلاقی مسائل رویوں اور سیاستوں کو پرکھنے کے کام آتا ہے جو ان فنون، ٹیکنالوجی اور حکومت و غیرہ سے مربوط ہوتی ہیں۔[2]
بعض لوگ ورزش کو معمول جسمانی مہارت سمجھتے ہیں جو چند عمومی قوانین کے تحت تفریح، مقابلہ، ذاتی فرصت مہارت کے حصول یا ان میں جیسے مقاصد کے لیئے دی جاتی ہے، بیاں ورزش کی تعریف اسی مقاصد کے تحت کی جاتی ہے۔
بعض ان سے اہم موضوعات جع اخلاق ورزش کی بحثوں میں آتے ہیں وہ، ہیں: ورزش کے قدر و قیمت، جواں مردی باہمی مقابلہ، منصفانہ کھیل، دھوکہ بازی، طاقت افزا دوائیں، تماشیئوں اور دوست داروںکا اخلاق، مربی اور ورزش کرنے والوں کے درمیان اخلاقی روابط و غیرہ ۔۔۔ ۔[3]
قابل قدر اخلاقی افعال مادی قدروں سے بالاتر ہوتے ہیں، اس طرح سے کہ ہر انسان کا احترام کرتا ہے۔ چاہے وہ ان پر عمل نہ کرسکا ہو، اسی لئے کہنا چاہیئے کہ وہ تمام چیزیں جو عمومی اخلاق میں پائی جاتی ہیں زور کھیل کے بعد انوں میں عملی ہوسکتی ہیں ان پر عمل ہونا چاہیئے۔
دوسرے لفظوں میں ایک ورزش کار کو جسم کے علاوہ روح پر بھی توجہ کرنا چاہیئے کیونکہ جسم و روح کے درمیان گہرا رابطہ ہے، اسی لئے اسلام نے صرف جسم کی تربیت اور ورزش پر ہی توجہ نہیں دی ہے بلکہ جسم کے ساتھ روح پر بھی توجہ دی ہے اور روح کی تربیت و تقویت کے لئے بھی بہت سے دستور بیان ہوئے ہیں مثلا: روزہ، نماز، دعا و غیرہ ورنہ صرف جسم کی طرف توجہ دینے کی کوئی حثیت نہیں ہے اور یہ چیز انسان کو حیوانیت سے خارج نہیں کرتی۔
امام خمینیؒ ان دو بنیادی اصل پر تاکید کرتے ہوئے ورزش کاروں سے ملاقات کے دوران نافرماتے ہیں: ’’ورزش کار جس طرح جسم کی ورزش کرتے ہیں اسی طرح انھیں روح کی بھی ورزش کرنی چاہیئے۔ ایران کے ورزش کار پر انے زمانہ سے خدا اور علیؑ کو یاد کرتے رہے ہیں اور یہ ان کی نمایاں خصوصیت رہی ہے‘‘[4]
اہم بات یہ ہے کہ ورزشی ادارے اور ورزش کرنے والے افراد کو ورزشی اخلاق سے آگاہ ہونا چاہئے اور مناسبت کے ساتھ انھیں ورزشی میدانوں میں برتنا چاھیئے، کیونکہ اگر ورزشی ادارے ورزش سے اخلاقی نصب العین سے آگاہ نہ ہوئے تو ایک ورزش کار بھی اپنے فرائض سے آگاہ نہ ہوگااور خود کو ورزشی اخلاق سے آراستہ نہ کرپائے گا۔
اس تحریریں سن بعض اخلاقی فرائض اور فضائل کی طرف اشارہ کیا جاتاہے جنھیں ایک ورزش کارکو ورزش کے میدانوں میں برتنا چاہیئے۔
ایک: نفس امارہ سے جہاد یعنی شیطان ہوا و ہوس سے لڑنا جو آدمی کو گناہ و معصیت کی طرف کھینچتی ہے۔ ایک ورزش کا کو بھی دوسرے انسانوں کی طرح ان شیطان ہوا و ہوس سے لڑنا چاہیئے اور ان پر غلبہ حامل کرنا چاہیئے، اس سلسلہ میں معصومین علیہم السلام سے بہت سی حدیثیں بیان ہوئی ہیں جن میں سے نمونہ کے طور پر بعض کو بیان کیا جاتا ہے:
۱۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: طاقتور اور فاتح وہ شخص نہیں ہے جو جو کشتی میں اپنے مقابل کو زمین پر پٹک دے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔[5]
۲۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جگہ سے گذر رہے تھے وہاں کچھ لوگ جمع تھے ان کے درمیان ایک طاقتور شخص تھا جو وزنی پتھر کو زمین سے اٹھاتا تھا لوگ اسے بڑا قوی انسان کھتے تھے اور سب اس کے اس عمل پر حیرت زدہ تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے پوچھا یہ کیسا مجمع ہے؟ لوگوں نے اس بہادر انسان کے زمین سے وزنی پتھر اٹھا نے کی بات آنحضرتؐ سے بیان کی۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے طاقتور انسان کون ہے؟ اس سے طاقتور شخص وہ ہے کہ لوگ اس کو گالیاں دیں اور وہ برداشت کرے اور اپنے سرکش نفس نیز انتقام کے جذبہ پر غلبہ حاصل کرلے نیز اپنے شیطان اور گالیاں دینے والے شیطان پر غالب آجائے۔[6]
۳۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: خواہش نفس تیری سب سے بڑی دشمن ہے، کوشش کرو کہ اس پر غالب آجاؤ ورنہ وہ تم کو ہلاک کردے گی۔[7]
۴۔ امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ سے پلٹنے والے افراد سے فرمایا: اللہ کی رحمت اور اس کا کرم ہو ان لوگوں پر جنھوں نے جہاد اصغر انجام دیااور ابھی جہاد اکبر ان کے لئے باقی ہے۔ لوگوں نے عرض کی: یا رسول اللہؐ جہاد اکبر کیا ہے؟ فرمایا: نفس کے ساتھ جہاد۔[8]
۲۔ بخشش و درگذر: ایک ورزش کا کو بخشنے اور فرگذر کرنے والا ہونا چاہیئے۔ جب وہ اپنی طاقت کے اوج و کمال پر ہو اور اپنے مقابل پر غلبہ حاصل کرلے تو اس پر سختی نہ کرے، اس سے بدلہ نہ لے اور اپنے حریف کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ اسے معاف کرنے اور درگذر کرنے کو اپنی فتح و کامیابی کا شکرانہ قرار دینا چاہیئے۔
امام علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:’’ اور اپنے غصہ کو پی جاؤ، طاقت کے وقت بدلہ لینے سے پرہیز کرو تندخوئی اور سختی کرنے کے وقت نرم ہوجاؤ اور دشمن پر قابو پالینے کے بعد انتقام نہ لو تا کہ بہ عمل تمہارے لئے نیک جزا اور نیک انجام کا باعث ہو۔[9]
۳۔ غرور و تکبر سے پرہیز: ورزش کار جتنا بھی طاقتور ہو اسے اپنی طاقت اور جو اس نے درجے حاصل کئے ہیں ان پر مغرور نہیں ہونا چاہیئے۔ اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ تمام طاقت و توانائی خدائے قادر کی جانب سے ہے۔ یہی وجہ ہے کریمنماز میں کھڑے ہوتے وقت کہتے ہیں: ’’بحول اللہ و قوتہ اقوم و اقعد‘‘ میں اللہ کی ہی طاقت سے کھڑا ہوتا اور بیٹھتا ہوں۔
امام حسین علیہ السلام جب اس کثیر لشکر پر حملہ کرتے تھے تو فرماتے تھے:’’لا حول و لا قوۃ الا باللہ‘‘[10] سوائے اللہ کی طاقت کے کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
خداوند عالم نے بھی قرآن کریم میں اسی بات کا ذکر فرمایا ہے:’’۔۔۔ ان القوۃ للہ جمیعا۔۔۔‘‘[11] تمام قوت و طاقت اللہ کے لئے ہے۔ لہذا کوئی وجہ نہیں ہے کہ طاقتور اور ورزش کار افراد اپنی طاقت پر غرور کریں، حریف کو کمزور سمجھیں اور اجتہاد کو بالائے طاق رکھ دیں۔ نتیجہ میں انھیں شکست کا منھ دیکھنا پڑے۔ جیسا کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:’’بہادر انسان کی آفت سوجھ بوجھ سے کام نہ لینا ہے‘‘[12] اور ’’طاقتور انسان کی آفت دشمن کو کمزور سمجھنا ہے‘‘[13]
۶۔ شرافت و جواں مردی کے ساتھ مقابلہ: بعض ورزشوں اور کھیلوں کی خصوصیت یہ ہے کی ان میں مقابلہ ہوتا ہے۔ اخلاقی مسائل میں فرد سے فرد کا مقابلہ اہم ہوتا ہے، یہی وہ مقابلے ہے جس میں جسمانی اور روحی مہارت، توانائی اور ہم آہنگی سب جمع ہوتا ہیں اور ایک ورزش کار کی جسمی و روحی ترقی کا باعث ہوتی ہیں۔
ورزش اور کھیل کی مثالی شکل اس بات کو بخوبی واضح کرتا ہے کہ کون سا مقابلہ دوستی اور رفاقت پر ختم ہوتا ہے۔ اگر ایک ورزش کار اپنے مقابل کو صرف دوست کی نگاہ سے دیکھے اور جانتا ہو کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچائے گا اسے دشمن نہ سمجھ بلکہ اسے اپنے ہی جیسا ایک طاقتور انسان اپنے جیسی اجھائیوں کا مالک سمجھے تو یہ مقابلہ دوستی پر ہی ختم ہوگا،’’پھر ہر حال میں جتنا‘‘ چاہے فریب و چال بازی سے میں سہی، ذہنوں میں نہ ہوگا۔
[1]. ر.ک: جمعی از نویسندگان، اخلاق کاربردی، ص 429، نشر پژوهشگاه علوم و فرهنگ اسلامی، چاپ دوم، 1388ش.
[2]. همان، ص 23.
[3]. ر.ک: همان، ص 80 و 417 – 420.
[4]. صحیفه امام، ج 18، ص 151.
[5]. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج 74، ص 153، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404ق؛ حرانى، حسن بن شعبه، تحف العقول، ص 47، انتشارات جامعه مدرسين، قم، 1404 ق؛ ابى فراس، ورام، مجموعة ورام، ج 1، ص 122، انتشارات مكتبة الفقيه،قم.
[6]. مجموعة ورام، ج 2، ص 10.
[7]. تميمى آمدی، عبدالواحد بن محمد، غررالحکم و دررالکلم، ص 306، انتشارات دفتر تبليغات اسلامى، قم، 1366ش.
[8]. عاملی، شیخ حرّ، وسائل الشیعة، ج 15، ص 161، مؤسسه آل البیت، قم، 1409ق.
[9]. نهج البلاغه، ص 459، انتشارات دارالهجرة، قم.
[10]. سيد ابن طاوس، اللهوف علی قتلی الطفوف، ص 119، نشر جهان، تهران، چاپ اول، 1348ش.
[11]. بقره، 165.
[12]. غررالحکم و دررالکلم، ص 259.
[13]. همان، ص 347.